ورلڈ بینک کے نومنتخب صدر اجے بنگا، جو سکھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، ایک غیرمعمولی روحانی اور سیاسی آزمائش سے دوچار ہیں۔
ان کے سامنے سوال کھڑا ہے کہ آیا وہ مودی سرکار کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کریں گے یا گرو نانک کی دھرتی کو پانی کے بغیر مرنے دیں گے؟
پانی محض ایک قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ روحانی اثاثہ ہے، جسے پنجہ صاحب جیسے مقدس مقامات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اگر اجے بنگا مودی سرکار کی حمایت کرتے ہیں تو سکھ مت کی ابدی میراث کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
پاکستان کا بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر نوٹس دینے کا فیصلہ
عالمی بینک کے صدر کی حیثیت سے ان کے فیصلے اس بات کا تعین کریں گے کہ وہ نیو انڈیا کی سیاسی ترجیحات کو اہمیت دیں گے یا پنجاب کے کسانوں اور دریاؤں کو بچانے کے لیے سکھ اصولوں پرعمل کریں گے۔ ان کا یہ بیان کہ ورلڈ بینک صرف ثالث ہے، سکھ برادری میں تشویش کا سبب بن گیا ہے، کیونکہ خدشہ ہے کہ وہ مودی سرکار کی قربت میں اپنے ہی لوگوں کے پانی کے حقوق کو نظر انداز نہ کر دیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا وہ اپنے پیشروؤں کی طرح لنگر رسد کی روایت نبھائیں گے یا سفارتی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر پیچھے ہٹ جائیں گے؟ گرو گرنتھ صاحب کی تعلیمات کے مطابق “پانی حيات دا مالک ہے”۔
اجے بنگا کا انتخاب سکھوں کے لیے ایک الہامی امتحان بنتا جا رہا ہے۔ مودی سرکار کی طرف جھکاؤ کا مطلب ہوگا کہ پنجاب کے کھیت سوکھ جائیں گے اور گردوارے ویران ہو جائیں گے۔ سکھ قوم سوال کر رہی ہے: کیا ایک سکھ رہنما اپنی قوم کی روحانی پیاس بجھانے سے انکار کر سکتا ہے؟
بھارتی جارحیت، غیور سکھوں کا بھارت کیخلاف کھڑے ہونے کا اعلان
اگر وہ سربت دا بھلا (سب کی بھلائی) کے اصول کو پس پشت ڈال کر اپنی بین الاقوامی ساکھ کو ترجیح دیتے ہیں، تو یہ سکھ تاریخ میں ناقابلِ معافی فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف اگر وہ بھارت کی مخالفت کرتے ہیں تو مودی سرکار کے پروپیگنڈے کی زد میں آ سکتے ہیں۔ آج اجے بنگا کی شخصیت ایک کٹہرے میں ہے: ایک طرف گرو کا فرمان، دوسری طرف مودی سرکار کا دباؤ۔
یہ فیصلہ محض پانی کا نہیں، بلکہ سکھ مت کی روح اور ہندوستان کی سیاست کے درمیان ایک نظریاتی جنگ ہے۔ تاریخ ان سے پوچھے گی، کیا آپ نے مودی کے کنول کو سیراب کیا یا گرو کے دریاؤں کو بچایا؟
اگر فیصلہ گرو نانک کی دھرتی کے خلاف آیا تو سکھ تاریخ میں اجے بنگا کے لیے معافی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔