فوجی عدالت میں سویلین ٹرائل کیس، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا

Supreme Court سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل مکمل کیے جس کے بعد آئینی بینچ نے کہا کہ کیس کا فیصلہ اسی ہفتے سنایا جائے گا۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ شارٹ آرڈر اسی ہفتے میں جاری کریں گے، دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 مئی کو دن 3 بجے سے شام تک 39 جگہوں پر حملے کیے گئے۔

سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ماضی میں ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی ہو گئی تھی، رد عمل میں اس پارٹی نے وہ نہیں کیا جو 9 مئی کو ہوا، جمہوریت بحالی تحریک میں ساری جماعتوں پر پابندی تھی، ایم آر ڈی کی تمام قیادت پابند سلاسل تھی۔

ہم الرٹ ہیں، بھارت نے جارحیت کی تو بھرپور جواب دیں گے، اسحاق ڈار

انہوں نے کہا کہ اصغر خان 3 ساڑھے 3 سال تک نظر بند رہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس دوران بھی 9 مئی جیسا قدم کسی نے نہیں اٹھایا، 9 مئی کو ری ایکشن میں بھی اگر یہ ہوا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ہمارا ملک ایک عام ملک نہیں ہے، جیوگرافی کی وجہ سے ہمیں کافی خطرات کا سامنا رہتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا، آپ اپیل کی طرف آئیں،اپیل کا بتائیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ سوال نہ بھی موجود ہو اس پر بات کرنا ضروری ہے، جناح ہاؤس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی، 3 اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن اور مراعات ریٹائر کیا گیا، 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا مطلب ہے انہیں مزید کوئی ترقی نہیں مل سکتی۔

بھارت کے اقدامات سے علاقائی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے، صدر مملکت

اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا فوج نے کسی افسر کے خلاف فوجداری کارروائی بھی کی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فوجداری کارروائی تب ہوتی جب جرم کیا ہوتا ہے، محکمانہ کارروائی 9 مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ واضح ہے کہ محکمانہ کارروائی کے ساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی۔

جسٹس اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے وقت لوگ گرفتاریاں دیتے تھے، کسی نے اس وقت پراپرٹی کو آگ نہیں لگائی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے والد نے خود بطور سیاسی کارکن مقدمات بھگتے، کبھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا کہ پبلک پراپرٹی کوجا کر نقصان پہنچائیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا جناح ہاؤس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا تھا؟ اگر اندر سے کسی نے کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اس کو چیک کر کے بتاؤں گا کہ کیسے ہوا تھا۔

بھارت کے معاملے پر پاک افواج کے ساتھ کھڑے ہیں، بیرسٹر گوہر

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا 9 مئی کو جو ہوا جرم کی نیت سے ہی ہوا؟ کیا نیت احتجاج ریکارڈ کرانے کی تھی یا حملہ کرنے کی؟ ہو سکتا ہے نیت احتجاج کی ہوئی ہو مگر معاملہ حد سے تجاوز کرگیا؟ حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا مگر کر گئے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ 9 مئی کو جو ہوا جرم ہی تھا۔

جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ غلط راستے پر چل پڑے ہیں۔ ہم نے9 مئی کے واقعے کی میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی، میرٹ پر بات کرنے سے ٹرائل اور اپیل میں مقدمات پر اثر پڑے گا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے مزید کہا کہ 9 مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سے سوالات اٹھیں گے، 9 مئی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب شاید آپ کیلئے دینا ممکن نہ ہوں، کیا بغیر پنشن ریٹائر ہونے والا جنرل کور کمانڈر لاہور تھا؟

پاکستان نے فتح میزائل کا کامیاب تجربہ کر لیا

جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی کور کمانڈر لاہور کو ہی بغیر پنشن ریٹائر کیا گیا۔ جسٹس نعیم افغان نے استفسار کیا کہ کیا کور کمانڈر لاہور ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ٹرائل کورٹ سے جب اپیل آئے گی تو عدالت کو معلوم ہوجائے گا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ یہی تو بات ہے کہ آپ جواب نہیں دے سکیں گے، بہتر ہے یہ باتیں نہ کریں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آئین میں ترمیم مشکل کام ہے لیکن 26 مرتبہ کر لیا گیا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ایسا کیا ہے کہ اس میں آسانی سے ہونے والی ترمیم بھی نہیں کی جاتی۔

سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے خلاف اپیلیں دائر ہوچکی ہیں، اب تک 86 مجرمان اپیلیں کر چکے، باقیوں کو اپیل دائر کرنے کے وقت میں رعایت دیں گے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج میں نے 45 منٹ مانگے تھے جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات کے تھے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بیس منٹ صرف جسٹس جمال مندوخیل کیلئے رکھے تھے، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے اپنا کوئی مسئلہ نہیں، ملک کے مستقبل کا سوچ رہا ہوں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔


متعلقہ خبریں