چوالیس سالا راجہ فرخ ممتاز ایک سیاسی و سماجی رہنما ہیں ان کو خدشہ ہے کہ ایک مجوزہ پن بجلی کے منصوبے کی تکمیل سے ان کے علاقے میں پانی کے قدرتی وساٗئل ختم ہوجائیں گے، مقامی درجہ حرارت بڑھ جائے گا اور علاقے میں بارشوں کی مقدار میں کمی ہو جائے گی۔
راجہ فرخ ممتاز کا تعلق آزاد جموں و کشمیر کے علاقے کھاوڑہ سے ہے جو دریائے جہلم پر کوہالہ نامی مقام کے ساتھ واقع ہے۔ جہاں پاکستان اور چین کے اشتراک سے پن بجلی کا ایک منصوبہ لگایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کے تحفظ ماحول کے حکومتی ادارے، ای پی اے، نے پہلے ہی خبردار کر رکھا ہے کہ ہمارے علاقے میں پائے جانے والے پانی کے قدرتی وسائل پن بجلی کے ایک دوسرے مقامی منصوبے، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، کی وجہ سے خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے ای پی اے کی طرف سے دیے گئے مشروط اجازت نامے میں دی گئی شرائط پر عمل درآمد یقینی بنانے کے بجائے حکومت پاکستان اب کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بنانا چاہ رہی ہے جس سے پانی کے مقامی وسائل کا خاتمہ یقینی ہو جائے گا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے دریائے جہلم کا رخ موڑے جانے کی وجہ سے یہاں کے مقامی درجہ حرارت میں تین سے چار ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو چکا ہے اور مقامی آبی وسائل کو بھی شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہو راجہ فرخ ممتاز کا کہنا ہے کہ “اگر بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پن بجلی کے منصوبوں کی تعمیر ضروری ہے توان کو چلتے دریاوں پر بنایا جائے نہ کہ دریاوں کا رخ تبدیل کر کے قدرتی نظام کو تباہ کیا جائے”۔
کوہالہ آزاد جموں و کشمیر کے صدر مقام مظفرآباد سے تقریباً 40 کلومیٹر جنوب میں واقع پے۔ یہاں پر کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا سنگ بنیاد 2011 میں رکھا گیا لیکن اس کی تعمیر کا سہ فریقی معاہدہ 26 جون 2020 کو طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت 1124 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے اس منصوبے کے لیے 52 میٹر بلند ڈیم تعمیر کیا جائے گا جبکہ اس منصوبے کے لیے درکار رقم کا تخمینہ 2 ارب چالیس کروار ڈالر لگایا گیا ہے۔ اس رقم کا بہت بڑا حصہ چین کی جانب سے فراہم کیا جا رہا ہے۔
کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر چائنا تھری گورجز کارپوریشن اور پاکستانی ادارہ، واپڈا، باہمی اشتراک سے کریں گے کیونکہ یہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک اہم حصہ ہے۔
مظفرآباد میں 2015 سے جاری دریا بچاؤ تحریک کے ایک متحرک رہنما فیصل جمیل کشمیری کا کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے حوالے سے کہنا ہے کہ مقامی آبادی نے کئی بار اس کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے لیکن پاکستان کے حکومتی ادارے ان کے احتجاج پر کان نہیں دھر رہے
دریا بچاؤ تحریک کا مقصد آزاد جموں و کشمیر میں جاری پن بجلی کے بڑے بڑے منصوبوں کے نتیجے میں دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں پیدا ہونے والے خلل ڈالنے اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے ماحولیاتی اور سماجی مسائل کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔
مظفرآباد میں کام کرنے والے وکیل راجہ امجد بھی دریا بچاؤ تحریک کے ایک متحرک رہنما ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے تحت دریا کا رخ تبدیل کرنا مقامی آبادی کو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “نہ صرف مقامی انسانی زندگی بلکہ مقامی جنگلی اور آبی حیات بلکہ پورے مقامی ماحولیاتی نظام کا انحصار دریا پر ہے۔ اس لیے دریا کا رخ تبدیل کرنے سے یہ پورا انسانی اور ماحولیاتی نظام بگڑ جائے گا”
وہ سمجھتے ہیں کہ اس ممکنہ بربادی کی ذمے داری ای پی اے پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ اس کے پاس کوئی ایسا ماہر موجود نہیں ہے جو پن بجلی کے منصوبوں سے پیدا ہونے والے سماجی اور ماحولیاتی نقصانات کا جائزہ لے سکے۔ ان کے مطابق “صرف سرکاری افسران اس ادارے میں کام کر رہے ہیں جن کے پاس ان منصوبوں کے اثرات کا تجزیہ کرنے کی کوئی اہلیت ہی نہیں”
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے اسی صورت حال کے پیش نظر 15 نومبر 2019 کو حکم دیا تھا کہ کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے ادارہ تحفظ ماحولیات نے جن شرائط پر مشروط این او سی جاری کی تھی چار ماہ کے اندار حکومت پاکستان اور واپڈا اس پر معاہدہ کریں ایک سال کے اندار ان تمام شرائط پر عملدرامد کیا جائے جن کی بنیاد پر ان کو مشوط این او سی جاری کی گئی تھی مگر ان میں سے کسی پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ کورٹ نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے ماحولیاتی اثرات کی جانچ کسی بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر سے کروائی جائے لیکن، وہ کہتے ہیں، “یہ جانچ ابھی تک نہیں کی گئی”۔
راجہ فرخ ممتاز کی طرح راجہ امجد بھی سمجھتے ہیں کہ کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی تعمیر سے مقامی درجہ حرارت میں چار سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو جائے گا “جو کہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے حوالے سے جو شرائط رکھی گئی ہیں اگر ان پر عمل بھی کر لیا جائے تو بھی اس کے ماحولیات اثرات پر کسی صورت قابو نہیں پایا جا سکتا”۔
وزیر اعظم پاکستان نے 9 اکتوبر 2018 کو شمائل کمیشن نام سے وفاقی سیکرٹری شمائل احمد خواجہ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا۔ اس کمیشن کے رکن وزیر اعظم آزاد کشمیر، چیئرمین ووپڈا اور (اے سی ایس ڈی) ایڈیشنل سیکرٹری ڈویلپمنٹ تھے۔
کمیشن کو بنانے کا مقصد نیلم جہلم پراجیکٹ کے بنانے کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کا جائزہ لینے کے بعد ایک رپورٹ مرتب کرکے وزیر اعظم پاکستان کو ارسال کرنا تھا۔وفاقی سیکرٹری برائے آبی وسائل شمائل احمد خواجہ کی جانب سے یکم اپریل 2019 کو یہ رپورٹ جاری کی گئی۔
شمائل کمیشن کی تیار کردہ رپورٹ ان خدشات کی تصدیق کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی تعمیر کے لیے دریائے جہلم کا رخ تبدیل کیا گیا تو علاقے میں خشک موسم کا دورانیہ سو دن تک بڑھ سکتا ہے، جس سے مون سون بارشوں کا سلسلہ بھی متاثر ہوگا۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں مظفرآباد شہر سمیت پراجیکٹ کے اردگرد واقع بہت سی آبادیوں میں ایک شدید ماحولیاتی اور آبی بحران پیدا ہو جائے گا۔
زائد امین کاشف، جو کشمیر کے متحرک سیاسی اور سماجی راہنما ہیں اور جوایک سابق دور حکومت میں وزیر اعظم معائنہ اور عملدرآمد کمیشن کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان اور واپڈا نے 2008 سے اب تک بدترین عوام دشمن اور ماحولیات مخالف پولیسی اختیا کر رکھی ہے۔
ان کے مطابق کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی تعمیر بھی اسی پالیسی کا تسلسل ہے کیونکہ اس کا نتیجہ “مقامی لوگوں کی نقل مکانی اور دربدری کے سوا کچھ نہیں نکلے گا”۔ اس پراجیکٹ کی تعمیر سے جنم لینے والے ممکنہ خدشات کے بارے میں جب وزیر اعظم آزاد کشمیر انوارالحق سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی حکومت اس کی تعمیر کی اجازت دے دے گی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہے سکتے کیونکہ ابھی تک اس منصوبے پرکسی قسم کا کام شروع نہیں ہوا”۔