غذر میں زیادتی کی شکار معذور بچی زندگی کی بازی بھی ہار گئی

کھائی جا گری

گلگت (تنویر عباس) یاسین ویلی،غذرمیں زیادتی کی شکار معذور بچی زندگی کی بازی بھی ہار گئی۔

ضلع غذر کی 13 سالہ ڈاؤن سنڈروم کی شکار بچی، زیادتی کا شکار ہونے کے بعد گلگت ہسپتال میں مردہ بچے کو جنم دینے کے بعد انتقال کر گئی ہے۔

سینئر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (SDPO) غذر، راجہ امیر ولی کے مطابق چند دن پہلے پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ ایک معذور بچی ، جسے نامعلوم افراد نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا، نے صوبائی ہیڈکوارٹر ہسپتال گلگت میں مردہ بچے کو جنم دیاہے۔امیر ولی نے بتایا کہ یاسین پولیس اسٹیشن کے سربراہ اور ان کی ٹیم گلگت پہنچی تاکہ کیس کی مزید تحقیقات کی جا سکے۔

گلگت پہنچنے پر پولیس ٹیم کو معلوم ہوا کہ مردہ بچے کو پہلے ہی گلگت کے ایک قبرستان میں دفنایا جا چکا ہے جبکہ لڑکی ICU میں کومہ کی حالت میں تھی۔ لڑکی تین دن کومہ میں رہنے کے بعد انتقال کر گئی۔

ڈیجیٹل دہشتگردی ہو رہی ہے، ریاست بھی محفوظ نہیں، عظمیٰ بخاری

تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ لڑکی کو پیٹ میں درد کی شکایت پر گلگت لایا گیا تھا۔ لڑکی کی والدہ نے ایک رشتہ دار پر شک کا اظہار کیا جسے بعد میں پولیس نے گرفتار کر لیا اور ڈی این اے کے نمونے لیے گئے۔ یہ نمونے مزید تجزیہ کے لیے لاہور بھیجے جائیں گے تاکہ کسی بھی ممکنہ تعلق کی تصدیق کی جا سکے۔

امیر ولی نے یقین دلایا کہ تحقیقات انتہائی سنجیدگی سے کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”جو بھی اس جرم میں ملوث پایا گیا، اسے قانون کے تحت سخت سزا دی جائے گی”۔ حکام اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ انصاف فراہم کیا جائے اور تمام مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جائے گا جب تک کہ اصل مجرم کا پتہ نہیں چل جاتا۔

پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے ریجنل کوآرڈینیٹر، اسرارالدین اسرار، نے کہا کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت اور محکمہ پولیس گلگت بلتستان کو چاہئے کہ اس کیس پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دے اور ملزمان کو قانون کی کٹہرے میں کھڑا کرے۔ ایک معذور بچی کے ساتھ اتنا بڑا ظلم ناقابل برداشت ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا شبلی فراز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

اسرار نے کہا کہ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ پولیس حکام نے اس واقعہ پر ایف آئی آر درج کر کے کچھ مشکوک لوگوں کو پکڑا ہے جو کہ اچھی پیش رفت ہے۔

تاہم، اسرارالدین نے کہا کہ اس کیس کے اصل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے واقعات نہ صرف شرمناک ہیں بلکہ ایسے واقعات معاشرے میں درندہ صفت لوگوں کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ گلگت بلتستان کی پولیس اور عدالت اس کیس کے مجرموں کو بے نقاب کرکے ان کو نشان عبرت بنائیں گی۔


ٹیگز :
متعلقہ خبریں