دنیا بھر میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد 73 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچ گئی، اقوام متحدہ


دنیا کی لگ بھگ 10 فیصد آبادی ہر رات بھوکے پیٹ سو جاتی ہے،2019 سے اب تک خوراک کی شدید کمی کے شکار افراد کی تعدادمیں 12 کرو ڑ 20 لاکھ اضافہ ہوا جس کے بعد مجموعی تعداد 73 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یہ بات اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن اور 4 دیگر اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتائی گئی،رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کی وبا اور یوکرین کی جنگ کے باعث 4 برسوں میں 12 کروڑ 20 لاکھ مزید افراد بھوک کے شکار ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو 2030 میں خوراک کی شدید کمی کے شکار افراد کی تعداد 60 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے، ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ 2019 سے 2020 کے دوران عالمی سطح پر بھوک کے شکار افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کے بعد حالات کسی حد تک بہتر ہو گئے مگر اب بھی مغربی ایشیا، افریقا اور کیریبین کے خطوں میں بھوک کی شرح بڑھ رہی ہے۔

20 لاکھ بچے پاکستان میں بھوکے سو رہے ہیں، مفتاح اسماعیل

ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ عالمی وبا اور یوکرین کی جنگ کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیاں، تنازعات اور معاشی عدم استحکام بھی لوگوں کو بھوک کی جانب دھکیلنے والے عناصرمیں شامل ہیں،روس پر یوکرین کے حملے کے بعد ایندھن، خوراک اور کھاد کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور اب تک قیمتیں کسی حد تک کم ہوئی ہیں مگر مہنگائی کے اثرات تاحال محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2022 میں 90 کروڑ افراد (11.3 فیصد عالمی آبادی) کو سال بھر میں کم از کم ایک دن خوراک کے بغیر گزارنا پڑا۔اسی طرح لگ بھگ ہر 3 میں سے ایک شخص یا 2.4 ارب افراد کو خوراک تک مسلسل رسائی حاصل نہیں ہے۔

2022 میں 5 سال سے کم عمر ساڑھے 4 کروڑ بچوں کو غذائی قلت کی بدترین قسم کا سامنا ہوا جبکہ اسی عمر کے 14 کروڑ 80 لاکھ بچوں کی جسمانی نشوونما متاثر ہوئی۔رپورٹ میں انتباہ کیا گیا کہ اگرچہ 2022 میں موسمیاتی تبدیلیوں نے عالمی وبا اور یوکرین کی جنگ جیسے اثرات مرتب نہیں کیے مگر وقت کے ساتھ اس کا اثر نمایاں ہوگا۔


متعلقہ خبریں