لاہور: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے یونان اور لیبیا کے بحری جہاز کے حادثات میں ملوث دو اہم انسانی اسمگلروں میں سے ایک کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
یونان کشتی حادثہ: معجزانہ طور پر محفوظ رہنے والے پاکستانی نے آنکھوں دیکھا حال بتا دیا
ترجمان ایف آئی اے کے مطابق یونان میں پیش آنے والے سانحے میں ملوث ایک اہم ملزم محمد سلیم سنیارے کو ایف آئی اے کی مقامی ٹیم نے ایک بڑی کارروائی کے دوران گجرات سے گرفتار کرلیا ہے۔
یونان کشتی حادثہ کیس-ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفیکنگ سرکل گجرات کی بڑی کارروائی
لیبیا کشتی حادثہ میں ملوث اہم سرغنہ گرفتار۔ملزم یونان کشتی حادثے کے مرکزی ملزم آصف سنیارے کا بھائی ہے۔ملزم نے متعدد پاکستانیوں کو غیر قانونی راستے سے یورپ بھجوانے کے لئے کروڑوں روپے بٹورے۔ pic.twitter.com/TiEOd44FBi— Federal Investigation Agency – FIA (@FIA_Agency) July 9, 2023
گرفتار کئے جانے والا محمد سلیم سنیارے مرکزی ملزم آصف سنیارے کا بھائی ہے جو تاحال مفرور ہے، ملزم سلیم نے مبینہ طور پر لوگوں کو غیر قانونی طور پہ یورپ بھجوانے کے لیے ان سے لاکھوں روپے وصول کیے۔
یونان کشتی حادثہ، ایف آئی اے کی کارروائی، 5 انسانی اسمگلرز گرفتار
ایف آئی اے ترجمان کے مطابق ملزم کے خلاف ایف آئی اے کی گجرات برانچ میں پہلے ہی 9 مقدمات درج ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق سلیم نے ہنڈی/حوالہ کے ذریعے اپنے بھائی کو رقم بھیجی اور یونان سانحے کے بعد روپوش ہو گیا، ملزم کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے گرفتار کیا گیا، اس حوالے سے مزید تفتیش جاری ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق مرکزی ملزم آصف سنیارے اس وقت لیبیا میں موجود ہے اور وہاں اس کے مختلف محفوظ ٹھکانے ہیں۔
یونان حادثہ، آدھی رات کو کشتی ہچکولے کھا کر ڈوب گئی، بچ جانے والے مسافر کے دردناک انکشافات
گزشتہ ماہ مبینہ طور پر 350 پاکستانیوں سمیت 800 افراد کو اٹلی لے کر جانے والی ماہی گیروں کی کشتی یونان کے قریب الٹ گئی تھی، اس واقعے کے بعد ملک بھر میں انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا تھا جس میں اب تک بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال بحیرہ روم میں لیبیا کے ساحل پر کشتیاں ڈوبنے کے دو دیگر قابل ذکر واقعات بھی ہوئے ہیں جن میں متعدد پاکستانیوں سمیت دیگر افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
یونان کشتی حادثے میں بچ جانے والے مسافروں نے کوسٹ گارڈز کو ذمہ دار ٹھہرا دیا
پہلا واقعہ فروری میں اور دوسرا اپریل میں رونما ہوا تھا تاہم حکام نے یہ واضح نہیں کیا کہ تازہ ترین گرفتاری کس کیس میں عمل میں لائی گئی ہے؟