ہائیکورٹ میں ججز نامزدگی کا حتمی اختیار متعلقہ چیف جسٹس کو ہی حاصل ہے، جسٹس اطہر من الل


سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہائیکورٹ میں ججز نامزدگی کا حتمی اختیار متعلقہ چیف جسٹس کو ہی حاصل ہے۔

پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل ججز کی تقرری کے خلاف سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر نے دو ایک کی اکثریت سے درخواستیں خارج کر دیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔

دورانِ سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس فہیم ولی، جسٹس اعجاز اور جسٹس کامران حیات کی منظوری دی۔ کمیٹی نے ایڈیشنل ججز کیلئے فضل سبحان، شاہد خان اور خورشید اقبال کے نام واپس بھجوائے۔ کمیٹی نے 3 نام واپس بھجواتے ہوئے ایڈیشنل ججز کے ناموں پر غور کرنے کی تجویز دی۔

مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی پہلی قائم مقام خاتون چیف جسٹس بن گئیں

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ ججز کی نامزدگی کا اختیار صرف متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو حاصل ہے؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ تھا تو جوڈیشل کمیشن کے ہر ممبر سے مشاورت تھی۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا ججز کی تقرری میں اندھا دھند سینیارٹی کے اصول کو دیکھا جائے اور قابلیت کو بالائے طاق رکھیں؟ کیا ججز کی تقرری میں سینیارٹی اصول کے ساتھ میرٹ کو نہیں دیکھنا چاہیے؟ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا جوڈیشل کمیشن کے معاملات پر پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری جوڈیشل ریویو کر سکتی ہے؟

ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں،جسٹس قاضی فائز عیسٰی

دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا پارلیمنٹری کمیٹی جوڈیشل کمیشن کو تجویز دے سکتی ہے؟ پارلیمنٹری کمیٹی صرف جوڈیشل کمیشن کی سفارش کی منظوری کرتی ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کے پارلیمنٹری کمیٹی برائے ججز تقرری کے فیصلے کے خلاف درخواستیں منظور کرنے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔


متعلقہ خبریں