معروف ماہر قانون اعتزاز احسن نے کہاہے کہ ٹیلی فون کالز کو ریکارڈ کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ کابینہ برخاست اور اسمبلی بھی تحلیل کی جا سکتی ہے۔
اعتزاز احسن نے کیپیٹل ٹاک میں معروف صحافی حامد میر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل غیر اخلاقی اور غیرآئینی بھی ہے،چیف جسٹس کمیشن کو کالعدم کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتیں پاکستان کے آئین کے تحت نہیں لگ سکتیں، میں سمجھتا ہوں حکومت کے پاس یہ اختیار ہی نہیں ہے، کسی اعلیٰ عدالت کے جج کو اس میں نامزد کردینا اور کمیشن بنادینا۔
یہ جو خود کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017ء ہے، میرا اپنا ماننا تھا اور میں بڑے اعتماد سے لوگوں کو کہہ رہا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ اس کمیشن میں نہیں بیٹھیں گے، ایسے کمیشن پرا ن کو کہا گیا کہ وہ نہیں جائیں، اس کی وجہ ایک تو بنیادی ہے کہ وہ جو ٹی او آرز بنے ہیں جس پر انہیں تفتیش یا تحقیق کرنی ہے، یہ ٹی او آرز زیادہ تر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے گرد منڈلاتے ہیں، اب تو براہ راست ان کی ساس کی مبینہ بات چیت ہے ان کی ایک سہیلی سے نجی گفتگوہے۔
یہ وہی چیف جسٹس ہیں جنہوں نے آدھی رات کو ان کے لیے عدالت لگائی، اعتزاز احسن
یہ آڈیو لیکس یا یہ آڈیو ٹیپنگ اگر اس کو دیکھا جائے تو یہ خود غیرقانونی ہے، نہ صرف غیرقانونی ہے، محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے کیس میں 1998ء، 1997ء کی ججمنٹ ہے ویسے رپورٹ 1998ء میں ہوئی، اس میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا ہوا ہے کہ یہ وائر ٹیپنگ اور ٹیلیفون کالز کو ریکارڈ کرنا چاہے وہ ججوں کے یا جرنیلوں کے وائر ٹیپ کرنا، کسی کے بھی، اتنا بڑا جرم ہے کہ اس اکیلے چارج میں کابینہ بھی برخاست کی جاسکتی ہے اور اسمبلی بھی تحلیل کی جاسکتی ہے، اس موقع پرحامد میر نے کہاکہ اسمبلی تحلیل بھی جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ اسمبلی فاروق لغاری نے تحلیل کی اور یہ چارج تھا۔
اعتزاز احسن کا پروگرام میں کہنا تھا کہ پہلی تو بات یہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ قاضی صاحب کو واپس لکھ دینا چاہئے تھا کہ آپ آڈیو لیکس کی کس طرح بات کررہے ہیں یہ تو غیرقانونی ہے، حکومت اگر خود سے ریکارڈنگ پیش کررہی ہے تو حکومت یہ تسلیم کررہی ہے کہ ہم نے ریکارڈنگ بھی کی ہے اور یہ ریکارڈنگ مستند ہے۔