کراچی: پی آئی کے طیارے حادثے کو 3 برس گزر گئے


“جہاز کے کیبن کا حصہ میرے گھر کی چھت پر تھا، باقی جہاز کے پَر یہاں اوپر تھے، اب ڈر لگتا ہے جب جہاز کا شور آتا ہے، دل گھبرانے لگ جاتا ہے”. حادثہ پیش آنے والے علاقے ماڈل کالونی کے رہائشی مرتضیٰ کی گفتگو۔

پاکستانی قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کے کراچی حادثے کو 3 سال گزر گئے۔ 22 مئی 2020 کو لاہور سے کراچی آنے والا طیارہ ایئرپورٹ کے قریب آبادی میں گِر کر تباہ ہوگیا تھا۔ پی کے 8303 کے حادثے میں عملے سمیت 97 افراد جاں بحق جبکہ 2 مسافر معجزانہ طور پر بچ گئے تھے۔

خراب موسم کے باعث پی آئی اے کا طیارہ بھارتی حدود میں داخل

ماڈل کالونی کے علاقے کی جس گلی میں جہاز گِر کر تباہ ہوا وہاں کے رہائشی آج بھی اس واقعے کو یاد کرکے لرز اٹھتے ہیں۔ سہیل اصغر نامی رہائشی نے اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ “جیسے ہی انہوں نے گاڑی میں بیٹھنے کیلئے دروازہ کھولا اچانک ایک دھماکے کی آواز آئی”۔

رہائشی نے بتایا کہ “جب ایئربس گلی کے بیچ میں گرا تو اس کا کاک پٹ میرے دروازے کے سامنے آکر گرا جس کے بعد ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا اور میں بے ہوش ہوگیا۔ کاک پٹ کے تپتے ہوئے ٹکڑے میرے اوپر آکر گرے۔ ہائیڈرولک آئل جیسی کوئی چیز تھی جس سے میرا پورا چہرہ متاثر ہوا”۔

یقین کریں! پی آئی اے کےسارے پائلٹس ادارہ چھوڑنا چاہتے ہیں، ڈی جی سی اے اے

دوسری طرف طیارے حادثے میں بچ جانے والے خوش قسمت مسافر محمد زبیر نے ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ “جب لینڈنگ کیلئے جہاز نے پہلی مرتبہ کوشش کی تو بہت زور سے رن وے سے ٹکرایا۔ اس کے بعد تمام مسافروں کو اندازہ ہوگیا کہ لینڈنگ نہیں ہوئی اور کوئی خرابی ہے”

محمد زبیر نے بتایا کہ “حادثے کے بعد جب میں جہاز سے باہر آیا ہوں تو مجھے اندر تو کوئی انسان نظر نہیں آیا، صرف چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی۔ میری اپنی یہ  حالت تھی کہ میں 3 مہینے بیڈ ریسٹ پر تھا”۔


متعلقہ خبریں