چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کا پہلا عدالتی فیصلہ سنادیا گیا


پاکستان کے ایک جج کی جانب سے مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کرتے ہوئے عدالتی فیصلہ سنادیا گیا۔

گزشتہ ماہ صوبہ پنجاب کے شہر پھالیہ کے ایڈیشنل سیشن جج محمد عامر منیر کی عدالت سے انوکھا فیصلہ جاری کیا گیا۔ ایک کم عمر ملزم کے خلاف ریپ کے الزام کی سماعت کے دوران مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ضمانت قبل از گرفتاری کا فیصلہ سنایا گیا۔

دورانِ سماعت ایڈیشنل جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اُن کے سامنے ایک 13 سالہ کم عمر بچے کی ضمانت کا کیس آیا ہے۔ بچے پر الزام ہے کہ اس نے ایک 9 سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی ہے۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ بچے کو ضمانت قبل از گرفتاری دی جائے۔

چیٹ جی پی ٹی کی غلط معلومات، قانونی کارروائی کا اعلان

جج محمد عامر نے بتایا کہ عدالت نے مقدمے کی جانچ  کے بعد اس وجہ سے چیٹ جی پی ٹی فور سے معاونت لینے کا فیصلہ کیا کہ کیا مستقبل میں قانونی کارروائیوں میں اس ٹیکنالوجی سے مدد لی جاسکتی ہے۔ کئی ملکوں کی طرف سے قانونی مشاورت کے لیے روبوٹس سے مدد بھی لی جا رہی ہے۔

ایڈیشنل جج نے چیٹ جی پی ٹی فور کا سہارا لیتے ہوئے اوپن اے آئی سے سوال کیا کہ پاکستان میں ایک 13 سالہ ملزم بچہ ہو اس کو ضمانت بعد از گرفتاری دی جا سکتی ہے؟ جواب میں ’جی پی ٹی فور‘ نے جواب دیا کہ پاکستان میں اس وقت جوینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 نافذ ہے جس کے سیکشن 12 کے مطابق مشروط طور پر عدالت ضمانت لے سکتی ہے۔

چیٹ جی پی ٹی پر پابندی عائد

سماعت کے اختتام پر جج نے چیٹ جی پی ٹی کے سامنے مقدمے کے حقائق رکھتے ہوئے رائے مانگی کہ کیا اِس کم عمر بچے کی ضمانت قبل از گرفتاری لی جانی چاہیے یا نہیں؟ جواب میں چیٹ جی پی ٹی کی طرف سے مشورہ دیا گیا کہ یہ فیصلہ عدالت کا ہے، البتہ حقائق کے مطابق اس کیس میں قانونی طور پر ضمانت لی جاسکتی ہے۔


متعلقہ خبریں