پی اے سی نے سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال کو طلب کر لیا


اسلام آباد: قائم مقام چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب لاہور اثاثوں کی عدم فراہمی اور الزامات سے متعلق طلبی پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش ہو گئے۔

پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی نور عالم خان کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں قائم مقام چیئرمین نیب ظاہر شاہ اور ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم پیش ہوئے۔

چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ آپ اور افسران ہمارے  لیے قابل احترام ہیں اور ہم آپ سے کوئی غیر قانونی بات نہیں کرتے مگر بدقسمتی سے رسہ کشی شروع ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ادارے کا وجود مارشل لا دور میں ہوا لیکن 20 سال میں رولز نہیں بناتے۔ افسران کے اثاثوں کی تفصیل  مانگنے پر آپ ہمارے اختیارات چیلنج کرتے ہیں ۔ عدالتوں کا احترام مگر عدالتیں 1973 کے آئین کے تحت بنی ہیں۔

کمیٹی کے رکن شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ ہائی کورٹ کو اس بات کا علم نہیں، پارلیمنٹ سب سے بڑا فورم اور چیئرمین کے پاس جوڈیشل پاورز ہیں۔ عجیب تماشا بنا ہوا ہے، کوئی سننے کو تیار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپس کی چپقلش سے ہم کمزور ہو رہے ہیں اور وہ زمانے چلے گئے جب ایک گال پر تھپڑ پڑنے پر دوسرا گال آگے کر دیتے تھے۔ مجھے ایک گال پر تھپڑ پڑے گا تو میں اُس کا گال لال کر دوں گا۔

چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے کہا کہ آپ ہمارا احتساب کریں اور ہم آپ کا احتساب کریں گے۔ خواتین کو ہراساں کرنے اور اختیارات کا ناجائز استعمال برداشت نہیں کریں گے۔

انہوں  نے ڈی جی نیب لاہور سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو کسی نے ہراساں کیا یا گالی دی؟ آپ کوئی دفاع کا ادارہ یا ملٹری نہیں ہیں۔ 20 سال سے ادارے کے رولز بنانا کس کی ذمے داری تھی؟

ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم نے کمیٹی کو بتایا کہ میں 22 سال سے نیب میں ہوں اور میں نے اس ادارے کا ہر دن اور رات دیکھے ہوئے ہیں۔ میں اپنے خاندان کے سامنے ملزم ہوں۔ ایک عورت جس پر  40 ایف آئی آرز ہیں اور آپ اس کو یہاں آکر ہماری تذلیل کروا رہے ہیں۔ کیا ہماری عزت نہیں؟ انہوں نے کہا کہ میری دو بیٹیاں اور ایک بہن ہے۔

چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے ہراسگی کا الزام عائد کرنے والی خاتون سے متعلق نامناسب لفظ استعمال کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے لیے ایسے الفاظ ناقابل برداشت ہیں۔ ہم نے متاثرہ خاتون کو سنا ہے لیکن فیصلہ نہیں کیا۔ آپ کو یہاں اس لیے بلایا ہے کہ آپ وضاحت کریں۔

یہ بھی پڑھیں: دوست ملک ایک ارب ڈالر سے زائد کی آئل فنانسنگ کرے گا، مفتاح اسماعیل

ارکان کمیٹی اور چیئرمین نور عالم خان نے بار بار ٹوکنے پر ڈی جی نیب شہزاد سلیم  پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ 20 سال آپ ہی کی سنتے رہے لیکن اب آپ ہماری سنیں۔ سب سے پہلے اپنے گھر کو درست کریں، اثاثوں کی تفصیل پر ایماندار لوگ پریشان نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ قانون کا احترام کرتا ہوں اور کسی کے باپ سے نہیں ڈرتا ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی جاکر کہوں گا، یہ ویڈیو ہے،میرے پاس یہ اختیارات ہیں۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیشی کے دوران قائم مقام چیئرمین نیب ظاہر شاہ نے کہا کہ 2008 سے اس فورم کو اسسٹ کر رہا ہوں۔ سیکرٹری داخلہ کو کہا گیا کہ میری حاضری یقینی بنائی جائے ۔ یہ نا انصافی ہے، ہم کب پی اے سی میں نہیں آئے؟۔ گزشتہ میٹنگ میں قانونی ماہرین سے مشاورت کا وقت مانگا اور قانونی ٹیم نے قانونی پیچیدگی پر عدالت جانے کا مشورہ دیا۔ کچھ چیزوں پر ہمارا اختلاف تھا جس پر ہم عدالت گئے لیکن ہم پی اے سی کے خلاف عدالت نہیں گئے۔

قائم مقام چیئرمین نیب ظاہر شاہ نے کہا کہ ہمیں ڈسکریمینیٹ نہ کیا جائے اور  پی اے سی نے آج تک کسی ادارے کے افسران کے اثاثوں کی تفصیل نہیں مانگی۔ ایف بی آر میں تمام افسران کے اثاثوں کی تفصیل اور ٹیکس ریٹرنز موجود ہیں۔ نیب کے تمام افسران ٹیکس ریٹرنز اور اثاثوں کی تفصیل جمع کراتے ہیں۔

چیئرمین پی اے سی نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس 11 اگست کو طلب کرتے ہوئے سابق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو بھی طلب کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ پی اے سی اجلاس میں زیر بحث معاملات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سپریم کورٹ کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ بھی لیتی ہے۔


متعلقہ خبریں