اسلام آباد: سینیٹ اجلاس میں قومی سلامتی پالیسی پیش نہ کرنے پر حزب اختلاف نے احتجاج کیا اور ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کر گئے۔
سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت شروع ہوا۔ وقفہ سوالات کے دوران وزیر انسداد منشیات نے سینیٹ اجلاس میں تحریری جواب جمع کرایا۔ جس میں کہا گیا کہ نئے بحالی مراکز قائم کرنے کے لیے 3 ارب سے زائد روپے کی ضرورت ہے اور نئے بحالی مراکز قائم کرنے کے لیے حکومت نے فنڈز فراہم نہیں کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ اور اسلام آباد میں منشیات بحالی مراکز ہیں جبکہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بحالی مراکز نہیں ہیں۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے معاملہ متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔
سینیٹر بہرہ مند تنگی نے نقطہ اعتراض پر بات کرنے کی کوشش تو چیئرمین سینیٹ نے انہیں روک دیا اور کہا کہ پہلے ایجنڈا ختم ہو جائے پھر آپ کو موقع دیں گے۔ جس پر بہرہ مند تنگی نے سوال کیا کہ ایجنڈے کے بعد مجھے بات کرنے کی اجازت ملے گی ؟
چیئرمین سینیٹ نے جواب دیا کہ کیا اب میں آپ کو اسٹام پر لکھ کر دوں۔
اجلاس کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل کا سفارش کردہ پیغام سینیٹ میں پیش کیا گیا۔ مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے دستاویز ایوان میں پیش کیں۔
وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے حزب اختلاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نہ خود کھاتا ہے نہ کسی کو کھانے دیتا ہے اور موجودہ حکومت نے عوام کا پیسہ پانامہ اور سوئس بینکوں میں نہیں بھیجا۔
چیئرمین سینیٹ نے وزیر مملکت علی محمد خان کو سوال کا جواب دینے کی ہدایت کی تو وزیر مملکت نے کہا کہ سوال سیاسی ہوا اس لیے جواب بھی سیاسی دیا ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگانے والوں نے تو کچھ نہیں کیا البتہ حکومت نے 1500 ارب روپے کی نئی پاکستان ہاؤسنگ اسکیم شروع کی ہے۔
قومی سلامتی پالیسی پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے پر حزب اختلاف نے احتجاج کیا اور چیئرمین کے ڈائس کا گھیراؤ کیا۔ حزب اختلاف نے سینیٹ سے واک آؤٹ بھی کیا۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ جس نے احتجاج کرنا ہے اپنی نشستوں پر جا کر کرے اور یہ حزب اختلاف غلط روایت ڈال رہی ہے۔ سب کو بولنے کا حق دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی حکومت نے صرف بحران دیئے ہیں، مرتضیٰ وہاب
ڈاکٹر شہزاد وسیم نے استفسار کیا کہ آج تک کس حکومت نے قومی سلامتی پالیسی دی ہے ؟ جہاں وردی والے ہوں حزب اختلاف والے بھاگ کر آتے ہیں اور چونکہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وردی والے نہیں تھے اس لیے حزب اختلاف نے بائیکاٹ کیا۔ جب انتخابات قریب آتے ہیں تو وفاداریاں بدلتی رہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت سے پہلے پاکستان 21 مرتبہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) میں جا چکا ہے۔
اس سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بھی تحریری جواب جمع کرایا جس میں بتایا گیا کہ یکم جولائی 2018 سے 30 جون 2021 تک سرکاری ٹی وی سے 38 افراد کی ملازمت ختم ہوئی۔ جعلی سرٹیفکیٹ اور ڈگریوں پر 10 افراد کو ملازمت سے فارغ کیا گیا جبکہ 20 ملازمین کو تادیبی کارروائی اور 8 افراد کو ناقص کارکردگی پر برطرف کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اسی عرصے میں 61 افراد کی مختلف نشستوں پر تقرریاں کی گئیں۔ 7 اینکرز، 12 پروفیشنلز، عارضی بنیادوں پر 37 اور یومیہ اجرت پر 3 تقرریاں کی گئیں۔ سرکاری ٹی وی پر دیگر میڈیا چینلز سے مسابقت کے لیے تقرریاں کی گئیں۔
سینیٹر دوست محمد نے وزیر داخلہ شیخ رشید پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید احمد ٹی وی پر تو روزانہ نظر آتے ہیں لیکن ایوان میں آج تک ہم نے ان کی شکل تک نہیں دیکھی۔ جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ شیخ رشید ایوان کو اپنا دیدار کرائیں۔
علی محمد خان نے کہا کہ شیخ رشید اور دوست محمد میں مقابلہ حسن کرایا جائے اور سینیٹر مولانا عطاء الرحمان کو مقابلہ حسن کا جج مقرر کیا جائے۔