سپریم کورٹ نے نور مقدم کیس میں استغاثہ کو عصمت ذاکر کی حد تک شواہد پیش کرنے کی ہدایت کر دی ،جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ شفاف ٹرائل کا حق لازمی ہے تاہم مقدمہ نمٹانے میں تاخیر سے اضطراب بڑھتا ہے۔
سپریم کورٹ میں نور مقدم کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت کے کیس پر سماعت ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ عصمت جعفر کا اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں کہاں ذکر ہے؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عصمت جعفر کا ہائیکورٹ کے فیصلے میں ذکر ہی موجود نہیں۔
ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ قتل کامقدمہ ظاہر جعفر پر ہے، والدین قتل کے وقت کراچی میں تھے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم صرف کیس کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ نور مقدم قتل کیس ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔ ہمیں مقتولہ کے اہل خانہ سے ہمدردی ہے۔ صرف کیس کے حقائق کو سمجھنے کے لیے آپ سے معلومات لے رہے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ وقفے کے دوران معلوم ہوا ہے کہ میری فیملی میں فوتگی ہوگئی ہے۔ ابھی فوری طور پر لاہور روانہ ہونا ہے ،ٓئندہ سماعت پر استغاثہ عصمت ذاکر کی حد تک شواہد پیش کرے ۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ تاحال فرانزک رپورٹس بھی موصول نہیں ہوئیں ،ہائیکورٹ کے دو ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے حکم سے شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہوگا ۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ شفاف ٹرائل کا حق لازمی ہے تاہم مقدمہ نمٹانے میں تاخیر سے اضطراب بڑھتا ہے ۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ چھ موبائل فونز کے سوا تمام فرانزک رپورٹس آ چکی ہیں،عدالت نے مزید سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی۔