لداخ میں چینی افواج کی تعیناتی پر بھارت پریشان


بھارتی فوجی سربراہ کے مطابق لداخ کے سرحدی علاقوں میں چینی افواج کی تعیناتی کا سلسلہ بھارت کے لیے تشویش کی بات ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بھارت اس وقت کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھی کافی تیار ہے۔

بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نروانے نے خطہ لداخ کے دو روزہ دورے کے بعد بھارتی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ چین نے لداخ کے متعدد متنازعہ سرحدی علاقوں میں اپنی فوج کی تعداد اور ان کی تعیناتی میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے جو بھارت کے لیے ایک تشویش کی بات ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت جارحیت سے باز رہے، چین کی وارننگ

چند روز قبل ہی چین نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت ‘فارورڈ پالیسی‘ پر عمل پیرا ہے اور سرحد پر کشیدگی کی اہم وجہ یہ ہے کہ وہ غیر قانونی طریقے سے چین کے علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے۔ بھارت نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دوطرفہ کشیدگی کی وجہ باہمی سرحد پر فوجوں کی تعیناتی ہے۔

جنرل نروانے کا مزید کہنا تھا۔ چینی فوجیوں کو ہماری مشرقی کمان تک پورے مشرقی لداخ اور شمالی محاذ پر کافی بڑی تعداد میں تعینات کیا گیا ہے۔ یقینی طور پر آگے کے علاقوں میں ان کی تعیناتی میں کافی اضافہ ہوا ہے

ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایسا نہیں لگتا کہ اس علاقے میں کسی،  جارحیت کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا، ہم ان کی جانب سے ہونے والی تمام پیشرفت کی نگرانی کر رہے ہیں۔ موسم کی بنیاد پر ہمیں جو بھی اِن پُٹ ملتا ہے، اس کے مطابق ہم اس سے مقابلے کا انفراسٹرکچر بھی تیار کر رہے ہیں۔ اس وقت ہم کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھی پوری طرح سے تیار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چین، بھارت میں کشیدگی: پی ایل اے سرحد میں داخل ہو کر پل تباہ کرگئی، بھارتی میڈیا

بھارتی فوجی سربراہ کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ سرحدی اختلافات مسلسل مذاکرات سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ ا ن کا مزید کہنا تھا، ’’میری پختہ رائے یہ ہے کہ ہم اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہم اس کے ذریعے نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہمیں توقع ہے کہ اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں مذاکرات کا جب 13واں دور ہوگا، اس وقت کشیدگی کم کرنے جیسے معاملے پر  ہم میں اتفاق ہو جائے گا۔‘‘

متعلقہ خبریں