مضاربہ اسکینڈل کے ملزم سیف الرحمان خان کی سپریم کورٹ کے احاطے سے گرفتاری پر نیب پراسیکیوٹر جنرل نے سپریم کورٹ سے غیرمشروط معافی مانگ لی۔
مضاربہ اسکینڈل کے ملزم سیف الرحمان خان سپریم کورٹ میں ضمانت کروانے کے لیے پہنچا تھا۔ عدالت کے احاطے میں موجود نیب عہدہ دارنے ملزم کو گرفتار کر لیا۔
قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو ملزم کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ نیب عہدہ دار ان کے مؤکل کو گرفتار کرکے لے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: نورمقدم کیس: تھراپی ورکس ملازمین کا کوئی کردار نہیں، عدالتی فیصلہ
اس پر قائم مقام چیف جسٹس نے پوچھا سپریم کورٹ کے احاطہ سے ملزم کو کس اختیار کے تحت گرفتار کیا گیا؟ کیا نیب اہلکار کسی اکھاڑے میں آئے ہوئے تھے؟۔
عدالت نے تھوڑی دیر کے لیے سماعت ملتوی کردی اور نیب حکام کو طلب کرلیا۔
کیس کی دوبارہ سماعت پر پراسیکیوٹر جنرل نیب عدالت میں پیش ہوئے اور ملزم کی احاطہ عدالت سے گرفتاری پر غیر مشروط معافی مانگ لی۔
سپریم کورٹ نے نیب کے افسر سے پوچھا ایسی کیا ایمرجنسی تھی کہ نیب نے ملزم کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا؟
قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے عدالت کے وقار کا تحفظ کرنا ہے۔ عدالتی احاطہ کی توہین نہیں ہونے دیں گے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے نیب ملازمین کی شناخت کی جائے گی۔ نیب نے ریکوری کرنی ہے تو قانون کے مطابق کرے۔
انہوں نے کہا کہ نیب شہریوں کو خوفزدہ کرکے ریکوری نہیں کرسکتا۔ قانون کی حکمرانی نیب ریکوری سے زیادہ اہم ہے۔ سپریم کورٹ کوئی کیسینو نہیں کہ جہاں نیب ملازمین اس طرح حملہ آور ہوں۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کو بتایا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری کی غلطی تسلیم کرتا ہوں۔ ملزم سے بھی تحریری معافی مانگتا ہوں۔
سپریم کورٹ نے ڈی جی نیب راولپنڈی اور ڈی جی ایچ آر نیب کو آئندہ سماعت پر بلا لیا اور ملزم کو گرفتار کرنے والے اہلکاروں کی تفصیلات بھی مانگ لیں۔
عدالت نے نیب اور پولیس اہلکاروں کی ٹریننگ سے متعلق جواب بھی طلب کر لیا۔
عدالت نے ملزم سیف الرحمان کی ضمانت منظور کر لی اور انہیں 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔