روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے سخت ترین الفاظ میں مغرب کو خبردار کیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ “ریڈ لائن” عبور نہ کریں۔
قوم سے سالانہ خطاب میں روسی صدر نے بیلاروس کی حکومت کے خلاف مبینہ بغاوت کی سازش کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ روس کے خلاف مغرب کی ناجائز پابندیوں کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے اور مغرب کی جانب سے بیلاروس میں بغاوت کی کوشش کی جارہی ہے۔
17 اپریل کو بیلاروس کے حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے صدر لیوکاشینکو کو قتل کرنے کا امریکی منصوبہ ناکام بنادیا ہے اور دو افراد گرفتار کیے ہیں۔ روس کی فیڈرل سیکیورٹی سروس (ایف ایس بی) نے کہا تھا کہ اس سازش میں مبینہ طور پر ملوث دو بیلاروس شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
صدر پوٹن نے کہا کہ روس تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے لیکن مغربی طاقتوں کی جانب سے روس کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی مستقل کوششیں کی جارہی ہیں۔
مزید پڑھیں: ولادی میر پیوٹن نے 2036 تک صدر رہنے کے قانون پر دستخط کردیے
انہوں نے کہا کہ ہم تعلقات کے پل نہیں جلانا چاہتے ہیں لیکن اگر کوئی ہمارے اچھے ارادوں کو کمزوری سمجھتا ہے تو وہ سن لے کہ ہمارا رد عمل اس کے خلاف غیر متزلزل، تیز اور سخت ہوگا۔ ہم ہر معاملے میں اپنے لیے فیصلہ کریں گے کہ سرخ لائن کہاں کھینچنی ہے۔
خیال رہے کہ پوٹن کی جانب سے یہ انتباہ اس وقت سامنے آئی ہے جب یوکرائن کے معاملے پر روس کے مغرب کے ساتھ تعلقات سخت کشیدہ ہیں۔ روس اور یوکرائن میں تناؤ بڑھتا جارہا ہے اور روس نے متنازعہ علاقوں کے قریب ایک لاکھ سے زیادہ فوج منتقل کردیے ہیں
روس کی افواج کا ایک بڑا حصہ کریمیا میں ہے، جسے روس نے مارچ 2014 میں یوکرائن سے الگ کر کے اپنے ساتھ ملالیا تھا۔
روس مبینہ طور پر مشرقی یوکرائن کےعلیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کررہا ہے اور یوکرائن میں روس کی نئی مداخلت کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
پوٹن نے متنبہ کیا کہ “روس کے خلاف کسی بھی اشتعال انگیزی پر ان قوتوں کو بہت ہی زیادہ افسوس ہوگا کہ اس سے پہلے ان کو کبھی نہیں ہوا ہوگا۔