اسد امانت علی کو مداحوں سے بچھڑے 14 سال بیت گئے


پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ اسد امانت علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 14 برس بیت گئے۔

معروف کلاسیکل گائیک کی غزلیں اور گیت آج بھی افسردہ دلوں کی تسکین کا سبب بنتی ہیں، اسد امانت علی خان 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔

انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد امانت علی خان اور دادااستاد اختر حسین خان سے حاصل کی۔

اسد امانت علی خان نے اپنے چچا استاد حامد علی خان کے ساتھ اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا اور ان دونوں کی جوڑی نے کلاسیکی گائیکی کو ایک نئی جہت دی۔

1974ء میں استاد امانت علی خان کی اچانک وفات کے بعد اسد امانت علی خان نے ان کے گائے ہوئے خوب صورت نغموں خصوصاً انشا جی اٹھو اب کوچ کرو سے اپنی شہرت کے سفر کا آغاز کیا۔

انہوں نے کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت، غزلیں اور فلمی گانے گائے جو اپنے دلکشی اور سریلے پن کی وجہ سے زبان زد عام ہوئے۔

معروف گلوکار کو اصل شہرت غزل عمراں لنگیاں پباں بھار سے ملی،، جبکہ چچا استاد حامد علی خان کے ساتھ گائے دو گانے آج بھی شائقین کی سماعتوں میں زندہ ہیں.

انہوں نے جن فلموں کو اپنی گائیکی سے سجایا ان میں شمع محبت، سہیلی، انتخاب، شیشے کا گھر، زندگی، ابھی تو میں جوان ہوں ، ترانہ، آئی لو یو اور آندھی اور طوفان کے نام شامل ہیں۔

اسد امانت علی ایک بہت اچھے سوز خواں بھی تھے اور خصوصاً میر مونس لکھنوی کا سلام مجرئی خلق میں ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا پڑھنے میں اختصاص رکھتے تھے۔

حکومت پاکستان نے استاد اسد امانت علی خان کو ان کی فنی خدمات کے صلہ میں 2007ء کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔

اسد امانت علی خان 8 اپریل، 2007ء کو لندن، برطانیہ میں حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگئے تھے۔ وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک ہیں۔


متعلقہ خبریں