اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نےطیبہ تشدد کیس میں سیشن جج راجہ خرم علی خان اوراس کی اہلیہ کو ایک، ایک سال قید کی سزا سنادی ۔
جسٹس عامر فاروق نے فیصلے میں دونوں ملزمان پر50 ،50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔
معطل ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر بھی احاطہ عدالت میں موجود تھے۔
فیصلے کے بعد پولیس نےمعطل ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ خرم علی خان اوراس کی اہلیہ کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرکے جیل منتقل کردیا۔
طیبہ تشدد کیس میں عدالت نے 27 مارچ کو حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
طیبہ تشدد کیس:
دس سالہ کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پرتشدد کا واقعہ 27 دسمبر 2016 کو پیش آیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا تھا۔
پولیس نے29 دسمبر 2016 کو راجہ خرم علی خان کے گھر سے طیبہ کو تحویل میں لے کر کارروائی شروع کی۔
سابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور اہلیہ کے خلاف پولیس نے تھانہ آئی نائن اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا۔
3جنوری 2017 کو طیبہ کے والدین نے راجہ خرم اور اس کی اہلیہ کو معاف کردیا جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے معاملے کا از خود نوٹس لیا۔
سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے8 جنوری 2017 کو اسلام آباد کے مضافاتی علاقے سے طیببیہ کوبازیاب کراکے عدالت میں پیش کیا۔
عدالتی حکم پر راج خرم علی خان کو12 جنوری 2017 کوبطورایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کام کرنے سے روک دیا گیا۔
10 فروری 2017 کو ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف علی نے ملزمان کی عبوری ضمانت کی توثیق کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان پر 16 مئی 2017 کوفرد جرم عائد کی۔
کمسن ملزمہ طیبہ تشدد کیس میں مجموعی طور پر 19 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔
گواہان میں گیارہ سرکاری اور طیبہ کے والدین سمیت 8 غیر سرکاری افراد شامل تھے۔
استغاثہ کے گواہان کے بیانات، ریکارڈ اور طرفین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد 27 مارچ 2018 کوعدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔