کراچی: سندھ کابینہ نے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) ڈاکٹر سید کلیم امام کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
یہ بات صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات سعید غنی نے کابینہ اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتائی۔
وزیراعلیٰ سندھ بہت مہربان ہیں، آئی جی سندھ کا دعویٰ
انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ کی جانب سے آئی جی کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے کی سمری میں صورتحال سے آگاہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت تین نام آئی جی سندھ کے لیے وفاق کو بھیجے گی۔
حکومت سندھ اور آئی جی سندھ کے درمیان اختلافات کی خبریں اس سے قبل بھی ذرائع ابلاغ میں سامنے آئی تھیں۔ دلچسپ امر ہے کہ جب آئی جی سندھ سے اس کی بابت دریافت کیا گیا تھا تو انہوں نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور وزیراعلیٰ سندھ بہت مہربان ہیں۔
ہم نیوز کے مطابق صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کس افسر نے صوبے میں آنا ہے اور کس نےجانا ہے؟ یہ فیصلہ آئی جی سندھ نے نہیں کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے آئی جی سندھ کسی اور کے کہنے پر چل رہے ہیں۔
حکومت سندھ کے سابق آئی جی اے ڈی خواجہ سے بھی اختلافات شدید نوعیت کے تھے۔ موجودہ آئی جی ڈاکٹر سید کلیم امام کا تقرر 12 ستمبر 2018 کو کیا گیا تھا۔
صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے بتایا کہ کابینہ کے فیصلے کے تحت صوبائی حکومت اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو آئی جی سندھ کے خلاف ڈسپلنری ایکشن لینے کے لیے خط لکھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کابینہ نے آئی جی سندھ کے لیے چار ناموں پہ غور کیا ہے جن میں غلام قادر تھیبو، کامران فضل، مشتاق مہر اور ثنا اللہ عباسی شامل ہیں۔
سندھ حکومت اور آئی جی سندھ پھر آمنے سامنے
ہم نیوز کے مطابق سعید غنی نے بتایا کہ کابینہ نے متفقہ طور پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے کہا ہے کہ وہ وفاق کو خط لکھیں۔ انہوں نے ڈاکٹر سید کلیم امام پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ایک موقع پر آئی جی کے کہنے پر ایک افسر کو صوبے سے باہر بھیجا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کی تبدیلی انہیں ٹی وی کے ذریعے پتا چلی۔
ہم نیوز کے مطابق صوبائی وزیراطلاعات و نشریات نے مؤقف اپنایا کہ مختلف مواقع پرمحکمہ پولیس براہ راست غیر ملکی سفارتخانوں کو خطوط لکھتا رہا جو قانون کے صریحاً خلاف ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ منع کرنے کے باوجود یہ سلسلہ برقرار رہا۔
آئی جی سندھ پر انہوں نے الزام عائد کیا کہ وہ وفاقی حکومت کو بھی خطوط لکھتے رہے حالانکہ وہ اس کے مجاز نہیں تھے۔ انہوں نےکہا کہ بسمہ اور دعا منگی کا کیس ایک جیسا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بسمہ کیس میں جب پولیس نے دلچسپی نہیں لی تو دعا منگی کا واقعہ ہوا۔
‘پنجاب میں اب بھی بہتری نہیں آئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب گھر جائیں گے‘
سعید غنی کے مطابق دعا منگی کی فیملی پولیس کے ساتھ بات تک کرنے کو تیار نہیں تھی لیکن جب وزیراعلیٰ سندھ نے یقین دہانی کرائی تو انہوں نے اپنا بیان دیا۔ انہوں نےکہا کہ یہ سب کچھ پولیس پر عدم اعتماد کی وجہ سے ہوا۔
حکومت سندھ کے وزیراطلاعات سعید غنی نے کہا کہ اسی طرح ارشاد رانجہانی کا واقعہ ہوا کہ اس کو سڑک پر گولیاں ماری گئیں جس پر پورے صوبے سے ردعمل سامنے آیا۔ انہوں نے براہ راست الزام عائد کیا کہ موجودہ آئی جی سندھ نے فائرنگ کرنے والے شخص کی گرفتاری سے روکا۔
ہم نیوز کے مطابق صوبائی وزیراطلاعات سعید غنی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شکارپور میں مختلف گاؤں کے 22 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ثابت ہوا کہ وہاں زیادتی ہوئی مگر وزیراعلیٰ سے وہ رپورٹ چھپائی گئی۔
سندھ کے ہر تھانے میں راؤ انوار کی موجودگی کا دعویٰ
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک انکوائری میں باقاعدہ ثابت ہوا کہ ایسے لوگوں کے خلاف بھی دہشتگردی کے مقدمات ہوئے جو اس وقت ملک میں ہی نہیں تھے۔