چور کو پڑ گئے مور: جج ارشد ملک کی ویڈیو بنائی، انعام میں ٹیمپرڈ گاڑی مل گئی

نوازشریف کے خلاف فیصلہ دینے والے جج ارشد ملک برطرف

فائل فوٹو


اسلام آباد: جج ارشد ملک 23 مارچ سے چار اپریل 2019 تک سعودی عرب میں رہے اور اس کے بعد 28 مئی سے اٹھ جون تک ایک مرتبہ پھر انہوں نے سعودی عرب میں قیام کیا تھا۔ انہوں نے دو ماہ میں دو عمرے کیے تھے۔

یہ بات فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائی گئی اپنی رپورٹ میں بتائی ہے۔ ایف آئی اے نے یہ رپورٹ جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کے حوالے سے تیار کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کی 2002-03 میں بنائی گئی ویڈیو سے مریم نواز نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اورانہوں نے مؤقف اپنایا ہے کہ جج ارشد ملک کی 16 سال قبل بنائی گئی ویڈیو دیکھی اور نہ حاصل کی۔

جج ارشد ملک کی وڈیو کا معاملہ سپریم کورٹ میں 20اگست کو سماعت کے لئے مقرر

ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جج کی مبینہ ویڈیو 2003 میں ملزم میاں طارق نے بنائی، ویڈیو ریکارڈ کرنے کے وقت میاں طارق وہاں موجود تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے ویڈیو کا فرانزک آڈٹ کرایا، احسن اقبال، خواجہ آصف اورعطا اللہ تارڑ سے بھی تفتیش کی جس میں تینوں رہنماؤں نے میاں شہباز شریف والا مؤقف اپنایا ۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں ایف آئی اے نے لکھا ہے کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو ناصر بٹ نے ان کے گھر میں ریکارڈ کی۔ ایف آئی اے کے مطابق دوران تفتیش ویڈیو حاصل کرنے والے سلیم رضا اور ناصر بٹ کی سفری تفصیلات بھی لی گئیں جن کے مطابق سلیم رضا مقدمہ درج ہو نے سے ایک دن پہلے تھائی لینڈ گیا تھا۔

ایف آئی اے کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ میاں طارق کو ویڈیو کے عوض دی گئی لینڈ کروزر کا انجن اور چیسز نمبرز ٹیمپرڈ ہیں اور اسے ملنے والا 13 ملین کا چیک بھی برآمد نہیں ہوا ہے۔

ایف آئی اے کے مطابق ناصر بٹ کی گرفتاری کے لیے انٹر پول سے رابطہ کیا جائے گا کیونکہ وہ انگلینڈ میں مقیم ہے۔ رپورٹ کے مطابق جج ارشد ملک کے گھر پر ناصر بٹ کے ساتھ ویڈیو بنانے والے شخص کی تلاش جاری ہے۔

جج ویڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار جج ارشد ملک نے ایف آئی اے کی جانب سے بھیجے جانے والے سوالات کے جوابات میں اعتراف کیا ہے کہ  یکم جون کو مدینہ کے اوبرائے ھوٹل میں حسین نواز نے ملاقات کی تھی۔

ہم نیوز کے مطابق جج ارشد ملک نے تسلیم کیا ہے کہ حسین نواز نے پانچ سو ملین رشوت اور فیملی کو برطانیہ و کینڈا میں سیٹل کرنے کی آفر کی تھی۔ ایف آئی اے کو دیے گئے جواب میں جج ارشد ملک نے بتایا ہے کہ رشوت کی پیشکش کے بدلے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جو قبول نہیں کیا تھا۔

جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو میں کوئی جعل سازی ثابت نہیں ہوئی

ہم نیوز کے مطابق ایف آئی اے نے جج ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات و تفتیش کے لیے مریم نواز کو 41، شہباز شریف کو 36، خواجہ آصف کو 22 اور عطااللہ تارڑ کو 22 سوالات پر مبنی سوالنامہ بھیجا تھا۔

جج ویڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار جج ارشد ملک کو دو مرتبہ سوالنامے بھیجے گئے تھے۔ ایف آئی اے نے جو پہلا سوالنامہ بھیجا تھا وہ 60 سوالات پر مبنی تھا جب کہ دوسری مرتبہ بھیجا جانے والا سوالنامہ 47 سوالات پرمشتمل تھا۔

عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں ایف آئی اے نے کہا ہے کہ ناصر جنجوعہ اور مہر غلام جیلانی نے جج ارشد ملک کو رشوت کی پیشکش کی اور نیب ریفرنس کے بعد دونوں نے جج ارشد ملک کو دھمکیاں دیں اور بلیک میل کیا۔

جج ارشد ملک کے متعلق رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی مدت ملازمت کے دوران تین غیر ملکی دورے کیے جن میں سے ایک سرکاری اور دو ذاتی دورے تھے۔

رپورٹ کے مطابق جج ارشد ملک نے سرکاری دورہ متحدہ عرب امارات کا کیا جو جنوری میں ہوا جہاں انہوں نے جوڈیشل تربیت حاصل کی جب کہ سعودی عرب کے ذاتی دورے کیے جس میں انہوں نے فیملی کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کی۔

پاکستان کی فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی نے پیمرا سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی پریس کانفرنس کا مسودہ بھی حاصل کرلیا ہے۔

ایف آئی اے نے مریم نواز کی جانب سے ملنے والے جوابات کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ چھ جولائی کی پریس کانفرنس میں ناانصافی عوام کے سامنے لائی۔ انہوں نے بتایا کہ ناصر بٹ (ن) لیگ لندن کا سینیئر نائب صدر ہے لیکن میرا اس سے رابطہ کم رہتا تھا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی کے مطابق جج ارشد ملک کی ویڈیو بنانے کے لیے ناصر بٹ کو انہوں نے نہیں کہا تھا اور اس نے ویڈیو اپنی مرضی سے بنائی تھی۔

جج ارشد ملک کے بیان حلفی میں کس ناصر جنجوعہ کا ذکر ہے؟

مریم نواز نے جمع کرائے گئے جواب میں دعویٰ کیا ہے کہ جج ارشد ملک کی جو ویڈیو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی وہ ایڈیٹڈ نہیں تھی۔ انہوں نے ایف آئی اے کو بتایا کہ ناصر بٹ نے جج ارشد ملک کی ویڈیو اس دن انہیں فراھم کی جس دن میاں صاحب جیل جارہے تھے۔

پی ایم ایل (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے مطابق ناصر بٹ نے انہیں بتایا تھا کہ ویڈیو دو آلات کی مدد سے ریکارڈ کی گئی تھی البتہ جس بندے نے جج ارشد ملک کے گھر ویڈیو بنائی اسے وہ نہیں جانتی ہیں۔

ایف آئی اے کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات میں مریم نواز نے بتایا کہ انہیں ناصر بٹ نے ایک بغیر سم موبائل فون کے ذریعے ویڈیو فراھم کی تھی جب کہ اصل ویڈیو اسی کے پاس ہے اور ان کے پاس وہ موجود نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ویڈیو کی چونکہ اصل کاپی ان کے پاس نہیں ہے اس لیے وہ ایف آئی اے کو دینے سے قاصر ہیں۔ ان کے مطابق پریس کانفرنس والے دن ویڈیو چلانے والا شخص پارٹی کا رضا کار تھا۔

مریم نواز کے مطابق پریس کانفرنس کے دوران جس لیپ ٹاپ کے ذریعے ویڈیو دکھائی گئی وہ واپس ناصر بٹ لے گیا تھا۔

ایف آئی اے نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائی گئی اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے انہیں پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں لکھ کر بتایا ہے کہ جج ارشد ملک کی نازیبا ویڈیو بھی ان کے پاس نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں