یہ پانچ انقلابی ایجادات عنقریب ہماری زندگی بدل دیں گی


بہت سی انقلابی ایجادات ہماری نظروں کے سامنے سائنسی افق پر نمودار ہوئیں اور دھیرے دھیرے زندگی کا حصہ بن گئیں۔ تاہم کئی ٹیکنالوجیز ایسی ہیں جو اپنی اساس میں غیرمعمولی حیثیت رکھتی ہیں لیکن ابھی تک وہ حقیقت کا روپ نہیں دھار سکیں۔ ان میں سے بعض اگلے چند سالوں میں تو دیگر ایک دو دہائیوں میں عملی شکل اختیار کر کے ہماری زندگی کو نیا رخ دیں گی۔ ان میں سے سب سے اہم ایجادات یہ ہیں۔

اڑنے والی کاریں (5 برسوں کی دوری پر)

اڑنے والی کاریں اگلے پانچ برسوں میں ہماری نظروں کے سامنے فضاؤں میں بکھری ہوں گی۔ اب تک کئی قسم کی گاڑیاں ہمارے سامنے آئی ہیں، ان میں واہانا ایئر بس بیٹری سے چلنے والی ایک نشست پر مبنی گاڑی ہے جو پہلے سے طے شدہ راستے پر اڑے گی اور صرف اسی صورت اس راستے سے ہٹے گی جب کسی تصادم کا خطرہ درپیش ہو گا۔ اسی طرح مختلف کمپنیاں اپنی اپنی اڑنے والی گاڑیاں سامنے لا رہی ہیں۔

سائی بورگ (20 سال کی دوری پر)

اگرچہ کانٹیکٹ لینز اور دیگر مصنوعی ایجادات کو ہم استعمال کرتے ہیں لیکن ابھی انسان ایسے مصنوعی اعضاء تیار نہیں کر پایا جو انسان کی حس اور قوت کو کئی گنا بڑھا دیں اور جو عام اعضاء کی طرح فطری انداز میں کام کر سکیں۔ کمپیوٹر کو انسانی دماغ کا حصہ بنانے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ ان تجربات کی کامیابی انسان کو سپرمین جیسی قوتیں عطا کر دی گی۔

خلا میں چھٹیاں منانا (5 سے 10 سال کی دوری پر)

اگرچہ ارب پتی افراد خلا میں چھٹیاں منا سکتے ہیں لیکن ابھی تک وہاں نہ ہی ہوٹل تعمیر ہوئے ہیں اور نہ ہی عام آدمی خلا میں جا سکتا ہے۔ پرائیویٹ کمپنیاں اس شعبے میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں اور امکان یہی ہے کہ انسان پہلے خلا میں، پھر چاند پر اور آخرکار مریخ پر بستیاں بسانے کے قابل ہو جائے گا۔

ذہن کو پڑھنے والی مشینیں (10 برس کی دوری پر)

ایف ایم آر آئی سکینر جیسی مشینوں کے ذریعے ذہنی کیفیات اور خیالات کو سمجھنے کی کوشش جاری ہے اور اس میں بہت حد تک کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔ اگلے دس برسوں میں اس حوالے سے بہت ترقی ہو چکی ہو گی اور انسانی ذہن کو پڑھنے والی مشینیں وجود میں آ چکی ہوں گی۔

غائب کر دینے والا لباس (کم از کم 10 برس کی دوری پر)

کسی بھی شخص یا چیز کو انسانی نظروں سے غائب کر دینے والا لباس ایسا ہو گا جس سے ٹکرانے والی روشنی کی شعاعیں منعکس نہیں ہوں گی اور یوں لگے گا جیسے وہاں کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ اگرچہ ابھی اس حوالے سے لیبارٹری میں تجربات جاری ہیں تاہم کامیابی کے حصول میں ایک طویل عرصہ لگے گا۔


متعلقہ خبریں