بھارت: ہندوآنہ نعرہ نہ لگانے پر مدرسے کے استادکو چلتی ٹرین سے دھکا

بھارت: ہندوآنہ نعرہ نہ لگانے پر مدرسے کے استادکو چلتی ٹرین سے دھکا

نئی دہلی: بھارت میں مسلمانوں سے ہندوآنہ نعرے لگوانے اور انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کا نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے لیکن تاحال اس ضمن میں مرکزی یا ریاستی حکومتوں کی جانب سے راست اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں جس کی وجہ سے جہاں انتہا پسند جنونی ہندوؤں کے حوصلے بڑھ رہے ہیں تو وہیں اقلیتیں بالعموم اور مسلمان بالخصوص شدید احساس عدم تحفظ کا شکار ہورہے ہیں۔

مغربی بنگال میں شرپسند ہندوؤں نے چلتی ٹرین سے ایک مدرسے کے معلم کو صرف اس لیے دھکا دے کر ’مبینہ‘ طور پر قتل کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے ’جے شری رام‘ کا ہندوآنہ نعرہ لگانے سے انکار کردیا تھا۔

جنونیوں نے ہندوآنہ نعرے لگوائے اور شمس تبریز کی جان لے لی

بسنتی کے رہائشی 26 سالہ حافظ محمد ساہ رخ ہلدار نے بھارتی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ گزشتہ روزان سے دوران سفر ٹرین میں سوارمسافروں نے مطالبہ کیا کہ وہ جے شری رام کا ہندوآنہ نعرے لگائیں لیکن جب انہوں نے انکار کیا تو انہیں چلتی ٹرین سے دھکا دے کر نیچے پھینک دیا البتہ اس سے قبل انہیں مارا پیٹا اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔

مدرسے میں استاد کے فرائض سر انجام دینے والے حافظ محمد ساہ رخ کے مطابق ٹرین میں موجود افراد خود نعرے لگارہے تھے اور خواہش مند تھے کہ میں بھی ان کا ساتھ دوں جس سے میں نے انکارکیا۔

مؤقر بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق متاثرہ نوجوان نے بتایا کہ ٹرین میں سے کسی نے تشدد کا نشانہ بنتے مسلمان نوجوان کی مدد نہیں کی البتہ جب وہ ٹرین سے گرے تو وہاں قریب موجود گاؤں کے افراد نے ان کی مدد کی۔چلتی ٹرین سے گرنے کے سبب انہیں زخم آئے ہیں۔

نئی دہلی: مولانا نے ہندوآنہ نعرہ نہیں لگایا تو ہو گیا قاتلانہ حملہ

بھارتی ریلوے پولیس کے افسر نے پیش آنے والے واقعہ پر بھارتی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ زیادہ امکانات اس بات کے ہیں کہ متاثرہ شخص کا دیگر مسافروں سے نشست کے مسئلے پر جھگڑا ہوا ہوجس کی وجہ سے یہ اسے چوٹیں و زخم آئے ہوں۔ پولیس افسر نے اعتراف کیا کہ تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

بھارتی اخبار کے مطابق کولکتہ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ابھی واقعہ کی ’تصدیق‘ کررہی ہے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

بھارتی پولیس نے جھار کھنڈ میں پیش آنے والے انسانیت سوز واقعہ پر بھی یہی مؤقف اپنایا تھا کہ وہ شمس تبریز کے ساتھ پیش آنے والے سانحہ کی تصدیق کررہی ہے جب کہ اس پر جان لیوا انسانیت سوز تشدد کی وڈیو وائرل ہوچکی تھی۔


متعلقہ خبریں