’وزیرستان سے فوج نکل جائے تو وہاں آئی ایس آئی ایس آجائے گی‘


اسلام آباد: تجزیہ کار جنرل (ر) سعد خٹک نے کہا ہے کہ یہ پشتون تحفظ موومنٹ نہیں بلکہ پشتون تباہی موومنٹ ہے، اس تحریک کا اب تک کیا فائدہ ہوا ہے؟

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیاء سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 20 سے 30 فیصد پشتون فوج میں ہیں اور آرمی چیف بھی رہ چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بیوروکریسی سمیت ہر ادارے میں بڑی تعداد میں پشتون موجود ہیں، انہوں نے تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا ہے تو یہ کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو نظام کے اندر سے گزرنا پڑتا ہے، پیپلزپارٹی پی ٹی ایم سے ہمدردی رکھتی ہے تو نقیب اللہ کے قتل میں ملوث لوگوں کو سزا دلوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

انہوں نے کہا کہ اگر وزیرستان سے آج فوج نکل جائے تو وہاں آئی ایس آئی ایس آجائے گی، جب تک سول اداروں کی صلاحیت نہیں بڑھتی تب تک فوج کو وہاں سے نہیں نکالا جاسکتا۔

سعد خٹک نے کہا کہ جب قبائلی علاقوں میں فوج نہیں گئی تھی تو وہ لوگ کتنی عزت دیتے تھے، فوج نے قربانیاں دے کر امن قائم کیا، چیک پوسٹیں پورے ملک میں ہیں تو وہاں سے کیسے ختم ہوسکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج بھی مسئلے کا حل چاہتی ہے، یہ تب استعمال ہوتی ہے جب باقی اداروں میں صلاحیت نہ ہو، سیکیورٹی فوج کا کام اور ترقیاتی کام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سیاسی مذاکرات ہوں۔ قبائلی نظام ہے اس کو مدنظر رکھ کر کوشش کی جائے اور سول اداروں کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے۔

سعد خٹک کی رائے تھی کہ ریاست کو قانونی مطالبات کو تسلیم کرکے حل کرنا چاہیے۔ اسمبلی میں زیادہ لوگوں کے آنے سے مسائل کے حل کے لیے آواز مزید موثر ہوگی۔

سئینر صحافی طاہر خان نے کہا کہ پی ٹی ایم ایک نئی چیز ہے، ان کے مطالبات آئینی ہیں، جب بھی مذاکرات کی دعوت دی گئی انہوں نے قبول کی۔ منتخب اراکین اسمبلی ہیں اور وہ اپنے لوگوں کے پاس گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی ایم یا کوئی بھی تصادم کی طرف جائے تو وہ ریاست سے نہیں لڑسکتا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس حکومت میں برداشت کم ہے، جس کی وجہ سے جگہ جگہ سے یہ مسائل سامنے آرہے ہیں۔

طاہر خان نےکہا کہ پاکستان کے خلاف جو بولے گا اس کا ساتھ نہیں دیں گے، اپنے ملک میں اپنے اداروں اور حکومت پر تنقید ہوگی لیکن باہر ان کا دفاع کریں گے۔ پاکستان کو رویہ تبدیل کرنا ہوگا کہ جو سخت بات کرے اس کے خلاف ہو جاؤ۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بعد واپس جائے گی، احساس محرومی دور ہونا چاہیے تاکہ لوگ محسوس کریں کہ صحیح معنوں میں انہیں بھی پاکستانی سمجھا جارہا ہے۔

طاہر خان نے تجویز دی کہ ملک بھر میں جو سہولیات ہیں وہ ان علاقوں میں بھی دی جائیں، انضمام کو ایک سال ہوگیا ہے اس پر نظرثانی ہونی چاہیے کہ اس پر کتنا کام ہوا ہے۔


متعلقہ خبریں