سینیٹ اجلاس: منی بجٹ پر اپوزیشن کی تنقید، حکومت کی وضاحت

اینٹی منی لانڈرنگ دوسرا ترمیمی بل 2020:تحریک سینیٹ میں پیش

فوٹو: فائل


اسلام آباد: حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے وفاقی وزیر داخلہ اسد عمر کی جانب سے پیش کردہ منی بجٹ کو خوش آئند قرار دیا ہے جب کہ اپوزیشن کے سینیٹرز نے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق سینیٹر امام الدین شوقین نے پیش کردہ بجٹ پر کہا کہ کل سے کہا جا رہا ہے کہ بڑا اچھا بجٹ آرہا ہے لیکن کیا یہ معلوم ہے کہ ملک کے 12 کروڑعوام غربت میں زندگی گزار رہے ہیں. انہوں نے دعویٰ کیا کہ بجٹ میں صرف امیروں کو ریلیف دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بینک پہلے ہی منافع میں تھے اب ان کا ٹیکس 39 سے 20 فی صد کردیا گیا ہے۔

سینیٹر امام الدین شوقین نے پیش کردہ منی بجٹ کو عوام دشمن منی بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی بزنس جریدے کی رپورٹ ہے کہ بنگلہ دیش اور انڈیا کا جی ڈی پی ہم سے آگے ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ خام مال اور بجلی مہنگی ہونے سے برآمدات نہیں بڑھیں گی۔

ہم نیوز کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب سے حکومت آئی ہے عوام حکومت اس کی نااہلی کی قیمت ادا کررہے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومتی نااہلی کی وجہ سے روپے کی بے قدری ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے فیصلے جن کے دور رس نتائج ہوں ان پر اگر وزیر اعظم، کابینہ اورایوان کو اگراعتماد نہ ہو تو پھر مارکیٹ کا یہی حال ہوتا ہے۔

سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ حکومت اگر سنجیدہ ہوتی دوسرا مالیاتی بل نہ لانا پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے آتے ہی گیس و بجلی کی قیمتیں بڑھ گئیں، حکومت نے کسانوں کو مالیاتی بل میں نظر انداز کیا اوران کو کوئی مراعات نہیں دی گئیں۔

پی پی پی کے سینیٹر نے الزام عائد کیا کہ حکومتی نااہلی کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں 57  پیسہ فی یونٹ اضافہ کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ منی بجٹ میں حکومت نے عام عوام کو کوئی فائدہ نہیں دیا اورنہ ہی سفید پوش و مڈل کلاس طبقے کو کوئی ریلیف دیا گیا۔

سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے دعویٰ کیا کہ اس فنانس بل سے بھی حکومت اہداف پورے نہیں ہوں گے اور آئی ایم ایف میں جانا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی معیشت کی جانب کوئی سمت ہی نہیں ہے۔

سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل(ر)عبدالقیوم نے منی بجٹ پرخطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جوٹیکس چھوٹ دی ہے وہ قابل تعریف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ فسکل ڈیفسٹ ہے لیکن کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم نے کے لئے کوئی ٹائم فریم نہیں دیاگیا۔

انہوں نے کہا کہ جن فونز پر ٹیکس زیادہ ہیں وہ علم کا ذریعہ ہیں اورٹیکنالوجی کے اس دور میں موبائل مہنگا کرنے سے نوجوان جدید علم سے محروم ہوجائیں گے۔

سینیٹرمولانا عبدالغفور حیدری نے اپنے خطاب میں کہا کہ منی بجٹ قابل قبول اور منی لانڈرنگ قابل تعزیر۔ انہوں نے کہا کہ چھ ماہ میں یہ تیسرا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر بجٹ میں غریبوں کو فوائد دینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن بجٹ سے غریب ہی متاثر ہوتا ہے۔

سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے سانحہ ساہیوال پر کہاکہ اس واقع پرابھی تک جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے انہوں نے استفسار کیا کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ دہشت گرد کو قتل کر کے دو کروڑ معاوضہ کا اعلان کیا گیا ہو؟

انہوں نے حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی کبھی کسی کو قتل کر کے اس کے گھر پر پھول لے کر گیا؟ ان کا کہنا تھا کہ جس کے گھر میں ماتم تھا اس کے گھر پھول لے کر گئے۔

سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ منی بجٹ سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمرانوں نے 50 لاکھ گھر دینےتھے مگر گھر کے لیے کوئی قرضہ نہیں دیاجارہا ہے۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ غریب کی جھونپڑی گرائی گئی مگر حیات ہوٹل کو ریگولائز کرا دیاگیا۔ منی بجٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں سمیت دیگر اشیا ئے خورد و نوش مہنگی ہوگئی ہیں۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں 300 ارب کاٹے گئے جس میں سے اکثر منصوبے صوبہ بلوچستان کے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازم رہے ہیں اور دونوں بجٹوں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ریلیف دیا گیا۔

ملکی حالات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں کاروبار تباہ ہوگیا ہے اور کسان سراپا اختجاج ہیں، موبائل کارڈ پر کوئی ریلیف نہیں دیا گیا بلکہ 30 روپے ٹیکس لگاد یا گیا۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ بھاشا ڈیم کے لیے ٹی وی پر پروپگنڈہ ہورہا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ڈیم فنڈز میں جمع نو ارب ہوئے ہیں اور اشتہارات پر 13 ارب خرچ ہوگئے ہیں۔

حکومت پرسخت تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے 20 اضلاع میں قحط سالی ہے لیکن اشتہار میں خوشحالی دکھائی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو دفعہ بجٹ پیش کرکے یہ لوگ ناکام رہے ہیں۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے زور دے کر کہا کہ اپنی پارٹی اور طبقے کے لئے نہیں بلکہ غریب عوام کے لیے پالیسی بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ڈالر مہنگا ہونے سے قرضہ بڑھ رہاہے اور بیرونی ممالک سے قرض کے بدلے سودے بازی ہورہی ہے۔

سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دولت کی منصفانہ تقسیم اور سماجی عدل کو یقینی ہونا چاہیے۔

وفاقی وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے اپنے خطاب میں دعویٰ کیا کہ کچھ ممبران کو ضمنی بجٹ کی سمجھ ہی نہیں آئی ہے وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز پر ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1800 سی سی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے۔

سینیٹ کے سابق چیئرمین سینیٹر رضاربانی نے اس موقع پر کہا کہ پہلے اراکین سینیٹ کو تجاویز دینے دیں اور وزیر مملکت اختتام پر بحث سمیٹیں۔

چیئرمین سینیٹ نے اس پر کہا کہ وزیر خزانہ بجٹ سے ہٹ کر بیان دیں۔

سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے اس موقع پر کہا کہ کوئِی رول بتائیں جس کے تحت وزیر خزانہ اختتام پر تقریر کریں۔

وفاقی وزیرمملکت برائے مالیات حماد اظہر نے اس پر کہا کہ کبھی میری موجودگی واک آؤٹ کا باعث بنی ہے  تو کبھی غیر حاضری۔

ہم نیوز کے مطابق وفاقی وزیرمملکت برائے محصولات حماد اظہر نے پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی موجودہ حالت گزشتہ دس سال میں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1971 سے ملکی معیشت کو مسائل درپیش ہیں۔

سینیٹر رضا ربانی نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ روایت کے مطابق منی بل پر وزیرآخر تقریر کریں۔

چیئرمین سینیٹ نے اس پر کہا کہ وزیر کسی اوراعداد و شمار پر بات کرنا چاہ رہے ہیں۔

وفاقی وزیر مملکت برائے محصولات حماد اظہرنے کہا کہ کبھی رولز کی بات ہوتی ہے تو کبھی روایات آڑے آجاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری عدم موجودگی پر اپوزیشن کو اعتراض تھا لیکن اب بھی ہے۔

وفاقی وزیر مملکت حماد اظہر نے دعویٰ کیا کہ ملکی معیشت کو درست سمت میں لے کر جارہے ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق وفاقی وزیر مملکت کے پالیسی بیان پر اپوزیشن ارکان احتجاج کرتے ہوئے نشستوں پر کھڑے ہوگئے۔

سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فرازنے اس موقع پراستفسار کیا کہ رضا ربانی صاحب بتائیں کس رول کے تحت وزیر کو بیان سے روکا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر صرف آج ہونے والے اعتراضات اور اعداد و شمار پر بات کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ روزآنہ کی بنیاد پر اعتراضات دور کریں۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ وزیر بجٹ بحث کو آخری دن سمیٹ لیں گے۔

سنِیٹر محمد اکرم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں مسافر بسوں کے ذریعے ایرانی تیل اسمگل ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ راستے میں کئی چیک پوسٹس ہیں لیکن روکتا کوئی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتة دنوں پنجگور میں حادثہ ہوا جس میں 28 سے زائد افراد جھلس گئے۔

سینیٹر محمد اکرم نے زور دے کر کہا کہ حکومت روک تھام کے لیے اقدامات کرے اوراگر ایران سے تیل لانا ہی ہے تو آئل ٹینکرز میں لایا جائے۔

ہم نیوز کے مطابق سینیٹ اجلاس میں نکتہ اعتراض پر خطاب کرتے ہوئے سینیٹر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ  حکومت نے ادویات میں 15 فیصد اضافہ کیا ہے تو وہ مارکیٹ میں 66 فیصد مہنگی ہوگئی ہیں۔

انہوں نے استفسارکیا کہ ادویات پر ٹیکس اس لیے لگایا گیا ہے کہ عوام ادویات نہ خرید سکیں۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ملک میں پہلے ہی مہنگائی و بے روزگاری زیادہ ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ حکومت جاگیرداروں اور پانامہ میں نام آنے والوں پر ٹیکس لگا دیے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ادویات کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ فوری طور پر واپس لیا جائے۔

امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے زور دے کر کہا کہ حکومت ایسے اقدامات نہ کرے جن سے موت سستی ہوجائے۔

ہم نیوز کے مطابق چیرمین سینیٹ نے ادویات مہنگی ہونے کا معاملہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

سینیٹ اجلاس صبح ساڑھے دس بجے تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔


متعلقہ خبریں