اسلام آباد: امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے پاکستان میں اپنا قیام بڑھا دیا ہے۔
ہم نیوز کے مطابق زلمے خلیل زاد کو شیڈول کے مطابق ہفتہ کے دن پاکستان سے روانہ ہونا تھا لیکن طالبان سے مذاکرات کی امید میں ان کی روانگی مؤخر کردی گئی ہے تاہم اس ضمن میں تاحال امریکی سفارتخانہ خاموش ہے۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کی ملک سے روانگی کا شیڈول امریکہ کا سفارتخانہ ہی بتا سکتا ہے۔
عالمی خبررساں اداروں کے مطابق افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور اسلام آباد میں کرانے پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔ زلمی خلیل زاد کے قیام میں توسیع اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
وزیر اعظم سےافغانستان کیلئے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کی اسلام آباد میں ملاقات۔ خطےکی صورتحال پرتبادلہ خیال. pic.twitter.com/nR5epACt9P
— Govt of Pakistan (@pid_gov) January 18, 2019
وزیراعظم عمران خان سے گزشتہ روز امریکی نمائندہ خصوصی کی ملاقات ہوئی تھی جس میں افغان مفاہمتی عمل میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا تھا۔ زلمی خلیل زاد کی وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔
Good meeting with FM @SMQureshiPTI this morning. We discussed the important role regional countries like #Pakistan have in helping deliver #peace and #reconciliation in #Afghanistan, and he assured me of #Pakistan‘s support. I look forward to concrete progress. pic.twitter.com/WRqIdPsSlV
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) January 18, 2019
سیاسی مبصرین کے مطابق حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی نے پاکستان میں اپنا قیام بڑھادیا ہے جب کہ طالبان ترجمان نے کسی بھی ایسے مذاکرات کی اطلاع کو بے بنیاد بتایا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ اسلام آباد میں امریکہ کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان ہونے والی ملاقات کی اطلاع میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ انہیں افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ہونے والے مذکراتی عمل میں ٹھوس پیش رفت کا انتظار ہے۔
زلمے خلیل زاد مذاکراتی عمل کی بحالی کے سلسلے میں چار ملکی دورے پر ہیں۔ ان کا مقصد طالبان کی جانب سے افغان حکومت سے بات چیت کرنے سے انکار کے بعد مذاکراتی عمل میں پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کو ختم کرنا ہے۔
امریکا نے طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کا آغاز گزشتہ سال جولائی میں کیا تھا۔
افغانستان کے نشریاتی ادارے ’طلوع نیوز‘ کے حوالے سے عالمی ذرائع ابلاغ میں گزشتہ چند گھنٹوں سے یہ خبر شہہ سرخیوں سے شائع ہورہی ہے کہ حزب اسلامی کے سربراہ 69 سالہ گلبدین حکمتیار نے 20 جولائی 2019 کو ہونے والے افغان صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
2016 میں افغان حکومت کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے کے تحت تقریباً 20 سال کی طویل جلاوطنی ختم کرکے وہ اپنے وطن واپس لوٹے تھے۔
طلوع نیوز نے انڈیپنڈنٹ الیکشن کمیشن کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدارتی امیدواران کی رجسٹریشن 20 جنوری تک لازمی ہونی ہے۔ اب تک کی موصولہ اطلاعات کے مطابق وہ نویں صدارتی منصب کے امیدوار ہیں۔
انجینئر گلبدین حکمتیار نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ آئندہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں امیدوار ہیں اور ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وہ اتحاد کے قیام کے حق میں نہیں ہیں۔
افغانستان میں جاری جنگ کا ذمہ دار انہوں نے حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ نظام کو لازمی تبدیل کرنا ہوگا لیکن خیال رہے کہ یہ تبدیلی پرامن ہو۔
ایک سوال کے جواب میں حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار نے واضح کیا کہ وہ وفاقی حکومت کے مخالف ہیں لیکن اس کے معنی قطعی یہ نہیں ہے کہ وہ نیم صدارتی ںظام کے حق میں ہیں۔