تحریر(شازیہ انور)ہم ٹی وی سے شروع ہونے والے نئے ڈرامہ سیریلز میں ”وہ ضدی سی“ ایک ایسا ڈرامہ ہے جسے لوگوں کی پسندیدگی کی سند حاصل ہورہی ہے ۔
کوئی بھی ایسا موضوع جو ہمارے ہی اندر سے اٹھایا گیا ہو اور ہر دو سرے گھر کی کہانی ہو عوامی پسند پر پورا اترتا ہے ۔ اس ڈرامے میں معاشرے کے ایک ایسے حساس موضوع کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جس پر بات کرنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن ٹوٹے ہوئے گھر خواہ وہ والدین کی علیحدگی کی صورت میں ٹوٹے ہوں یا پھر طلاق کے نتیجے میں ۔ ایسے گھروں میں پلنے والے بچے کئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں والدین اپنے بچوں کی خاطر ساری زندگی ظلم و زیادتی برداشت کرنا گوارا کرلیتے ہیں ۔
یہ ڈرامہ ایک اہم معاشرتی مسئلے کی عکاسی بھی کرتا ہے جہاں ماں یا باپ اپنے بچوں کی خاطر دوسری شادی کرنا گناہ سمجھتے ہیں لیکن اولاد ان کی اس قربانی کو اپنا حق سمجھتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت کی طلاق یاہمسفر کے دنیا سے رخصت ہوجانے کی صورت میں ان کی دوسری شادی کا تصور نہیں ہے۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف بہت سی باتیں کی جاتی ہیں اور اسے برا فعل سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بڑی مثال حال ہی میں بشری انصاری کی شادی کی ہے جو اپنے بچوں کی خاطر طویل عرصہ تک ایک تکلیف دہ بندھن سے جڑی رہیں اور فیصلہ کن مراحل کے بعد جب انہیں زندگی گزارنے کیلئے بہترین سہارا میسر آیا اور انہوں نے عقد ثانی کیا تو ان پر انگلیاں اٹھائی گئیں۔
اسی طرح سے گزشتہ دنوں جویریہ عباسی کی شادی کے وقت بھی منفی عوامی ردعمل سامنے آیا قبل ازیں ثمینہ احمد کے نکاح کے بعد بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی لیکن سچ تو یہ ہے کہ انسان کو ادھیڑ عمری اوربڑھتی ہوئی عمر کیساتھ ہمسفر کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے اور مذہب ہمیں اس کی مکمل اجازت بھی دیتا ہے۔
بہرکیف بات ہورہی تھی” وہ ضدی سی“ کی جہاں عمران عباس ایک نوجوان بچی ردا کے باپ ہیں‘ بیوی کے بعدوہ اس بچی کو ماں اور باپ دونوں کا پیار دینے کے چکر میں بدتمیز اور ضدی بنادیتے ہیں۔ حالات انہیں ایک ایسے موڑ پر لے آتے ہیں جہاں وہ مہرین(شہزل شوکت) نکاح ثانی پر مجبور ہوجاتے ہیں ‘ ایسے میں بیٹی کی جانب سے انہیں شدید مزاحمت کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ یہ ہر اس گھر کی کہانی ہے جہاں والدین میں سے کوئی ایک تنہا اپنے بچوں کی کفالت کرتا ہے اور ان کی تنہائی اور محرومی کا خیال کرتے ہوئے انہیں بے جا لاڈ پیار دیتا ہے اور نتیجتا بڑی تباہی اور بردبادی سامنے آتی ہے۔ردا مہرین کیلئے قدم قدم پر مشکلات کھڑی کرتی ہے اور مہرین ثابت قدمی اور تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن آخر کب تک ؟ جیسے جیسے ڈرامہ آگے بڑھے کا صورتحال کے مطابق ڈرامائی صورتحال ‘ اتار چڑھاﺅ اور دلچسپ واقعات کا سلسلہ دراز ہوتا رہے گا۔
یوں تو ڈرامہ مخصوص انداز میں رواں دواں ہے لیکن ناظرین آئینہ آصف کو ردا کے روپ میں قبول نہیں کرپارہے ‘ وہ ایک مغرور‘ بدتمیز اور ضدی لڑکی کا کردارادا کررہی ہیں جب کہ ماضی میں انہوں نے ہمیشہ دبے ہوئے کردار کئے ہیں ‘ یہ کردار نہ صرف ان کے ماضی کے کرداروں سے متضاد ہے بلکہ ان کی بھولی بھالی صورت بھی انہیں کسی بھی صورت منتقم مزاج ثابت نہیں کرتی ۔ یہ اعتراضات اپنی جگہ لیکن یہ بات اپنی جگہ ہے کہ آئینہ آصف اپنے کردار سے بھرپور انصاف کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔
مرکزی کرداروں کے علاوہ ڈرامے میں وسیم عباس‘ آصف دانیال ‘ افضل‘ فرح سعدیہ ‘غزالہ بٹ اور ماہ نور بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔ڈرامے میں عباس اشرف اعوان بھی شامل ہیں جو ہمارے اور آپ کے پسندیدہ عمران اشرف اعوان کے بھائی ہیں ‘ ماہ نور ملک کو آپ سلطنت اور میسنی میں بھی دیکھ چکے ہیں جبکہ دانیال افضل کو ہم فتنہ‘ میری بیٹیاں‘ اہل وفا‘ چاند کی پریاں سمیت دیگر ڈراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔
ڈرامے کے ڈائریکٹر ہیں ندیم صدیقی‘ تحریرسدرة المنتہیٰ جیلانی کی ہے جبکہ یہ ڈرامہ مومنہ درید پروڈکشن کی پیش کش ہے جسے ہم ہرجمعہ اور اتوار کی شب نو بجے دیکھ سکتے ہیں۔