چیف جسٹس آئینی آفس ہے جس کے اپنے اختیارات ہیں، چیف جسٹس


چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آئینی آفس ہے جس کے اپنے اختیارات ہیں، اگر چیف جسٹس موجود نہ ہو تو پھر قائمقام چیف جسٹس کام کرتا ہے۔

سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔

دوران سماعت وکیل ریاض حنیف راہی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میری توہین عدالت کی درخواست پر کوئی نمبر نہیں لگا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست پر نمبر سے متعلق ہم معلوم کراتےہیں۔ آ پ کو علم ہے کہ توہین عدالت کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والوں کے درمیان ہوتا ہے۔  آپ کی درخواست پر جو اعتراض ہوا ہے اس کو ختم کروائیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ کی درخواست میں ایک کمی ہے۔ چیف جسٹس آئینی آفس ہے جس کے اپنے اختیارات ہیں۔ اگر چیف جسٹس موجود نہ ہو تو پھر قائمقام چیف جسٹس کام کرتا ہے۔ آپ عدالتی فیصلوں کے حوالے پڑھنے سے پہلے قانون کو سمجھیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دوں گا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ اس پوائنٹ پر جا رہے ہیں کہ ہم میں سے تین ججز متنازعہ ہیں؟ اگر اس پر جاتے ہیں تو بتانا ہوگا کہ کس بنیاد پر فرض کر لیا کہ تین کا کنفلکٹ ہے۔ میں چاہوں گا آپ دوسروں سے زیادہ اہم ایشو پر فوکس کریں۔ دوسرا اور اہم ایشو عدلیہ کی آزادی کا ہے۔

دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز کے بارے میں پہلے بتائیں۔ حکومت کا کیا یہ کیس ہے کہ آڈیوز اوریجنل ہیں۔ کیا حکومت آڈیوز کی تصدیق ہونے اور درست ہونے کا موقف اپنا رہی ہے۔ 1996 میں بے نظیر کی حکومت ختم ہوئی تھی، اس وقت سپریم کورٹ سمیت سینئر حکام کی کال ریکارڈنگ کا الزام لگا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کابینہ ارکان نے کیا پریس کانفرنسز میں ججز کے خلاف باتیں نہیں کیں؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ معلوم ہے کہ سوشل میڈیا بہت آگے جا چکا ہے،اس کے منفی پہلو بھی ہیں۔ ایسے نہیں ہوتا کہ جج پر کوئی اعتراض اٹھائے اور جج بینچ سے الگ ہوجائے۔ کوئی بھی ہیکر سے کہہ کر ججز کیخلاف جھوٹی خبریں لگوا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ اعتراض صرف جوڈیشل کارروائی پر بنتا ہے یا انتظامی امور کی انجام دہی پر بھی ہے؟ آپ نے میرے علاوہ دو اور ججز پر بھی اعتراض کیا ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ باری باری سب پر اعتراض کیا جائے۔

اس موقع پر وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل جس فیصلے کا حوالہ دے رہے تو وہ اقلیتی رائے تھی۔ اگر کسی جج پر اعتراض ہو تو بھی اس پر کیس سننے کی ممانعت نہیں۔ حکومت انتخابات سمیت تمام مقدمات میں مدعی ہے اور خود ہی بینچ تشکیل دینا چاہتی ہے۔ حکومت نے کمیشن کے ٹی او آرز میں تو شامل نہیں کیا کہ آڈیوز ریکارڈ کرنے والوں کی تحقیقات کی جائیں۔

چیف جسٹس کی جانب سے اٹارنی جنرل اور شعیب شاہین کے دلائل کو سراہا گیا ہیں۔ وکیل شعیب شاہین نے استدعا کی کہ حکم امتناع میں توسیع کر دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکم امتناع تو برقرار ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں کی سماعت کو ملتوی کردیا گیا۔


متعلقہ خبریں