بھارتی فوج گزشتہ 76 برس سے مقبوضہ جموں کشمیر میں غیر قانونی قبضے کی مخالفت اور حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر کشمیری عوام کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ لائن آف کنٹرول کے قریب بے گناہ نوجوانوں کو مقبوضہ علاقے سے گرفتار کرنے کے بعد جعلی مقابلوں میں شہید کرنا بھارتی فوجیوں کا کئی دہائیاں پرانا وطیرہ ہے۔
سفاک بھارتی فوج کی بربریت سے بھری ایسی ہی ایک داستان ضیا مصطفی کی بھی ہے۔ ضیا مصطفی، تحصیل راولاکوٹ ضلع پونچھ آزاد جموں کشمیر کا رہائشی تھا جسے بھارتی فورسز کی جانب سے 23 جنوری 2003 کو نادانستہ طور پر لائن آف کنٹرول پار کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
را کے سابق سربراہ نے کشمیر معاملے پر اصلیت کا پردہ چاک کردیا
گرفتاری کے وقت ضیاء مصطفی کی عمر صرف 15 برس تھی جب مقبوضہ کشمیر کی پولیس نے معصوم بچے کو دہشتگرد ظاہر کرکے اس کے خلاف 6 جعلی مقدمات دائر کیے۔ یہی نہیں بلکہ 19 سال تک ظالم بھارتی فوج ضیا مصطفیٰ پر مسلسل ذہنی اور جسمانی تشدد بھی کرتی رہی۔
اِن جعلی مقدمات میں 30 سے زائد جھوٹے گواہان کی فہرست تشکیل دی گئی جن میں سے کئی گواہان عدالت میں پیش ہی نہ کیے جا سکے۔ تمام جعلی مقدمات میں ضیاء مصطفیٰ کے خلاف کچھ بھی ثابت نہ ہو سکا جس کے بعد بھارتی فوج کی بے گناہ ضیا کو دہشتگرد ثابت کرنے کی بھونڈی سازش ناکام ہوگئی۔
بالآخر بھارتی فوج نے اپنی نااہلی کو چھپانے اور رسوائی سے بچنے کے لیے 2021 میں ضیاء مصطفی کو جیل سے نکال کر ضلع پونچھ میں ایک جعلی مقابلے میں بے دردی سے شہید کر دیا۔ یہ واقعہ عالمی سطح پر انسانی حقوق اور خاص طور پر جینیوا کنونش کی کھلی خلاف ورزی تھی۔
بھارتی سائنسدان پاکستان کیلئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار
شہید کرنے کے بعد بھارتی فوج نے ضیاء مصطفی کی نعش بھی ورثاء کے حوالے تک نہ کی۔ ضیاء کی میت کا گھر والوں کو آج بھی انتظار ہے۔ ضیاء مصطفی اور ایسے کئی بے گناہ کشمیری بچوں اور نوجوانوں کا قتل عام کئی سالوں سے بھارت کا معمول بن چکا ہے۔
بھارتی فوج کا اس طرح کی کارروائیوں کا اصل مقصد متاثرین کو دہشتگردوں کے طور پر پیش کرکے کشمیریوں کی جاری تحریک آزادی کو بدنام کرنا ہے۔