کورونا لاک ڈاؤن اور خواجہ سراؤں کو درپیش مشکلات

کورونا لاک ڈاؤن اور خواجہ سراؤں کو درپیش مشکلات

پشاور: کورونا وائرس، لاک ڈاؤن  اور دیگر سماجی پابندیوں نے پاکستان میں انتہائی مشکل اور نامساعد حالات کا سامنا کرنے والے خواجہ سراؤں کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

کورونا وائرس اور اس سے جڑی دیگر پابندیوں نے اس کمیونٹی کی نہ صرف معاشی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے بلکہ انہیں پیٹ بھر کرروٹی ملنا بھی تقریبا ناممکن ہوگیا ہے۔ کورونا لاک ڈاؤن نے باقاعدہ نوکری نہ کرنے اور سڑکوں اور چوراہوں پر مانگنے والے اس طبقے کی مشکلات بڑھادی ہیں۔

اپنی کمیونٹی میں متمول سمجھی جانے والی خواجہ سرا پارو گزشتہ پانچ سال سے پشاور میں بوتیک چلانے کے ساتھ ساتھ  صوبے کے مختلف اضلاع میں ہونے والے نائٹ فنکشنز میں ناچ گانے کی محافل کے ذریعے اپنا سلسلہ معاش جوڑے رکھے ہوئے تھی۔ پارو کا کہنا ہے کورونا وائرس کی وبا سے پہلے زندگی آرام سکون سے کٹ رہی تھی۔ البتہ خاندان والوں کی طرف سے تو میل جول کے حوالے سے پریشانی رہتی تھی مگر اس طرح پیسے کی تنگی کبھی نہ دیکھی تھی۔

پارو کے مطابق کورونا لاک ڈاون کے سبب تقریبات پر لگی پابندیوں نے تو جیسے معاشی لحاظ سے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ روٹی رزق کی پریشانی اپنی جگہ، مالک مکان کی جانب سے کرائے کے تقاضوں نے ان کی راتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔

مزید پڑھیں: خواجہ سراؤں کیلئے کمپیوٹر کوڈنگ اور انگلش کی تعلیم

یہی مسلئہ دیگر خواجہ سراوں کو بھی درپیش ہے۔المیہ یہ رہا کہ کورونا وبا پھیلنے کے ڈرسے دیگر افراد تو سماجی فاصلہ اختیار کر رہے تھے مگر کمائی میں کمی کے بعد اکثر خواجہ سراوں کو اپنے کرائے کے گھروں کو چھوڑ کر کسی ایک کے گھر پر رہنے کا انتخاب کرنا پڑا، نتیجہ یہ ہوا کہ کرائے کے ایک کمرے میں دس دس خواجہ سرامقید ہوکر لاک ڈاؤن کا سامنا کرتے رہے۔

پارو

پشاور کی خواجہ سرا تنظیم کی صدر اور گُرو فرزانہ کا کہنا ہے کہ گُرو کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے وہ ناچ گانا چھوڑ چکی تھی جسکے بعد چیلے ہی کمائی کر کے اسے بھی پال رہے تھے۔ فرزانہ کے مطابق کورونا لاک ڈاؤن کے بعد مشکلات بڑھ گئیں اور پابندیوں میں نرمی کے بعد بھی ان کی مشکلات میں کمی نہ آسکی ہے کیونکہ کورونا وائرس کے لگنے کے خوف سے لوگ اس کمیونٹی کو تقریبات میں بلانے سے گریز کرتے ہیں۔

فرزانہ

اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ پاکستان میں اس طبقے نے روٹی روزی کے حصول کے لیے غیر روایتی طریقوں کو بھی اپناتا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں تو خواجہ سرا بھیک اور مانگ تانگ کر گزر اوقات کرتے ہیں، تاہم خیبر پختونخوا کی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی کمائی کا 70 فیصد انحصار ناچ گانے کی محفلوں میں شرکت جبکہ 30 فیصد کا بطور سیکس ورکرر ہے۔

پشاور میں خواجہ سرا برادری کی جنرل سیکرٹری امان اللہ عرف آرزو نے انکشاف کیا کہ بظاہر تو وہ اپنے خاندانی نظام سے کٹے ہوتے ہیں تاہم در پردہ وہ اپنے گھروں کی کفالت بھی کرتے ہیں۔ کورونا کے باعث فنکشنز بند ہونے سے ان کے ساتھ  ان کے گھر کے افراد کو بھی مالی پریشانی دیکھنا پڑ رہی ہے۔

امان اللہ عرف آرزو

2017  کی مردم شمای کے مطابق خیبر پختونخوا میں 913 رجسٹرڈ خواجہ سر ا ہیں مگر گذشتہ آٹھ سال سے ٹرانس جینڈرز کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم بلیو وینز کے سربراہ قمر نسیم کے مطابق صوبہ بھر میں ان کی اصل تعداد لگائے گئے اعدادوشمار سے دوگنی ہے کیونکہ بہت ساروں نے خود کو سماجی دباؤ اور جنسی ہراسیگی کے خوف سے رجسٹر کرانے سے گریز کیا ہے۔

کورونا لاک ڈاؤن کے دوران حکومتی امداد اور (احساس ) پروگرام سے محروم رہنے والی خواجہ سرا برادری سرکار سے عدم توجہی پر نالاں ہے تاہم ان سماجی اور فلاحی تنظیموں کی ضرور شکرگزار ہے جنہوں نے وبا کے مشکل دور میں انہیں راشن فراہمی کیا جس سے ان کے گھروں کا چولہا جلتا رہا۔

کورونا وائرس کی وبا کے دوران زندگی کے بدترین معاشی حالات سے گزرنے والی پشاور ٹرانس جینڈر کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ کوویڈ 19 وبا اور اس جیسی دیگر ممکنہ وبائی بیماریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومتی سطح پر انکے لیے ایسا فنڈ ترتیب دیا جائے جو کسی بھی ناگہانی آفت کی صورت میں انہیں معاشی تحفظ فراہم کرسکے۔


متعلقہ خبریں