غزہ:اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے تین فلسطینی مظاہرین جان بحق اور600 سے زائد زخمی ہوگئے۔
غزہ سرحد پر کی جانے والی فائرنگ سے زخمی ہونے والوں میں تین صحافی اور آٹھ طبی کارکنان بھی شامل ہیں۔
گزشتہ ماہ سے جاری احتجاج میں اب تک 45 فلسطینی مظاہرین جان بحق اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے خصوصی مندوب شہزادہ زید بن رعدالحسین نے نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مندوب نے بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کی مشرقی سرحد پر فلسطینیوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کررہی ہے۔
العربیہ ڈاٹ کام کے مطابق شہزادہ زید بن رعدالحسین نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں احتجاج کرنے والے 42 فلسطینیوں کو قتل اور 5500 کو زخمی کیا جا چکا ہے۔
’ہیرٹز‘میں عمیرہ ھس نے لکھا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف گولی چلانے سمیت مکروہ حربوں کے لئے اسرائیلی افواج کو غیر معمولی اختیارات دیئے گئے ہیں
اسرائیلی اخبار میں اسرائیلی تجزیہ کار عمیرہ ھس نے لکھا ہے کہ جاری فوجی کارروائیوں کو ’فوجداری کیسز‘ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
صحافی اور کارٹونسٹ ’جو ساکو‘ نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پرخاکوں کی شکل میں ایک کتاب مرتب کی۔
کتاب میں انہوں نے خاکوں کی مدد سے غزہ میں جگہ جگہ فلسطینیوں کی بکھری نعشوں اوراسرائیلی فوج کی طرف سے فائرنگ کی عکاسی کی ہے۔
صحافی اور کارٹونسٹ نے بھاگتے فلسطینی بچوں،خواتین اور ان کا تعاقب کرتے بندوق برداراسرائیلی فوجیوں کی منظر کشی بھی کی ہے۔
2007ء میں ایہود اولمرٹ کی حکومت نے پورے غزہ کو ایک’ کھلی جیل ‘میں تبدیل کرتے ہوئے اس کی تمام اطراف سے ناکہ بندی کردی تھی۔
عائد پا بندیوں کے باعث غزہ کے عوام کو ادویات، خوراک اور دیگراشیا کی درآمدات وبرآمدات پر پابندی عاید کردی گئی تھی۔
2008ء اور اس کے بعد کی جھڑپوں کے دوران اسرائیلی حکومت نےغزہ کی پٹی پر فوج کو طاقت کے وحشیانہ استعمال کی کھلی چھٹی دی۔
اسرائیلی افواج نے ننگی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھروں میں سوئے خاندانوں پر بمباری کرکے انہیں موت کی نیند سلا دیا۔
2008ء اور اس کے بعد بھی اسرائیلی افواج نے نہتے فلسطینیوں کا بے دریغ اور اجتماعی قتل عام کیا ۔