فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا، ججز اختلافی نوٹ


سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر دو اختلافی ججز نے اختلافی نوٹ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا،اگر فوج عدلیہ کے فرائض سر انجام دینے لگی تو لوگوں کا ان پر اعتماد نہیں رہے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل اور نعیم اختر افغان نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ہم  اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپیلیں مسترد کرتے ہیں،برطانوی فوجی قانون کی بنیاد 1689 کے میوٹنی ایکٹ سے پڑی،فوجی عدالتی نظام کا مقصد نظم، اخلاقیات اور ڈسپلن کو فروغ دینا ہے۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ چیلنج

ملٹری لاء صرف سزا نہیں بلکہ فوجی نظم و ضبط کا جامع نظام ہے،آئین کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ ممکن نہیں،تقسیم ہند سے قبل بھارتی فوج انڈین آرمی ایکٹ 1911 کے تحت چلتی تھی۔

1911کا قانون فوجی نظم و ضبط کے لیے جدید ضابطہ تھا،1911کا ایکٹ فوجیوں کے حقوق و فرائض اور نظم و ضبط کی وضاحت کرتا تھا،فوجی عدالتیں صرف فوجی اہلکاروں کیخلاف محدود دائرہ اختیار رکھتی تھیں۔

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کورٹ مارشل صرف ان معاملات میں ہوتے تھے جو فوجی خدمات سے متعلق ہوتے،صرف فوجی نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر کورٹ مارشل کیا جا سکتا تھا۔

سونے کی فی تولہ قیمت میں 700 روپے کی کمی

فوجی عدالتوں میں بہت سارے سویلینز سزا یافتہ ہیں،فوجی عدالتوں کے پاس سویلین کے ٹرائل کرنے کا دائرہ اختیار نہیں، غلط تاثر ہے کہ فوجداری عدالتیں دہشت گردی ختم نہیں کرسکتیں تو فوجی عدالتیں حل ہیں۔

کیا 21 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے دہشت گردوں کو سزاؤں سے دہشت گردی ختم ہوئی؟جواب ہے کہ قدرتی طور پر ایک فوجی افسر کا کام نہیں کہ وہ مجرمان کو سزائیں دے،جسٹس منیب اختر کے فیصلے میں درست ہےکہ فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے۔


متعلقہ خبریں