پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم نے جیولین تھرو کے دوران بھارتی ایتھلیٹ نیرج چوپڑا کیلئے خوش قسمت ثابت ہوئے؟ سب سے پہلی تھرو کیلئے نیرج اپنا نیزہ ڈھونڈ رہے تھے جو ارشد ندیم نے غلطی سے اٹھایا ہوا تھا،نیرج نے ارشد سے کہا بھائی یہ میرا نیزا ہے۔ میری باری ہے اور پھر نیرج پہلی تھرو سے ہی سب سے آگے رہے۔
ٹوکیو اولمپکس میں نیرج چوپڑا گولڈ میڈل کیلئے فیورٹ نہیں تھے لیکن حیران کن طور پر وہ جرمن کھلاڑیوں سے بھی آگے رہے۔ پاکستانی ارشد ندیم ان اولمپکس میں پانچویں نمبر پر آئے۔ ارشد ندیم فائنل میں پہنچنے کے باوجود پانچویں نمبر پر رہے اور میڈل سے محروم رہے۔ اس کے باوجود انہیں بہت سراہا گیا۔
بی بی سی کے مطابق اپنے وطن واپسی پر ایک انٹرویو میں نیرج نے کہا تھا کہ اگر پوڈیم پر ان کے ساتھ پاکستان کے ارشد ندیم بھی ہوتے تو ’ایشیا کا نام ہو جاتا اور یہ کتنا اچھا ہوتا‘۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت کا طلحہ طالب اور ارشد ندیم کو 40، 40 لاکھ روپے کا انعام
نیرج نے یہ بھی بتایا تھا طلائی تمغہ جیتنے کے ایک دن بعد انہوں نے اختتامی تقریب سے پہلے ڈائننگ ہال میں ارشد ندیم سے ملاقات کی تھی۔ دونوں نے بہت گرمجوشی سے ملاقات کی۔ نیرج چوپڑا کے مطابق ارشد ندیم نے ایک بڑی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں مبارکباد دی تھی۔
ارشد ندیم نے اپنی پہلی تھرو 82 اعشاریہ چار میٹر دور پھینکی، ان کی دوسری تھرو فاؤل قرار پائی جبکہ ان کی تیسری تھرو 84 اعشاریہ چھ دو میٹر دور پہنچی۔ اس تیسری تھرو کے باعث وہ 12 ایتھلیٹس میں سے پانچویں نمبر پر رہے۔
چوپس سالہ ارشد ندیم اولمپکس میں تمغہ نہ جیتنے کا وہ جمود بھی نہ توڑ سکے جو 29 سال سے قائم تھا۔ پاکستان نے آخری مرتبہ اولمپکس میں تمغہ سنہ 1992 کے بارسلونا اولمپکس میں جیتا تھا جب ہاکی ٹیم شہباز احمد کی قیادت میں کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
ارشد ندیم کی اس سال کی بہترین کارکردگی 86 اعشاریہ 38 میٹرز تھی جو انھوں نے ایران کے شہر مشہد میں منعقدہ مقابلے میں دکھائی تھی۔
ارشد ندیم نے ٹوکیو اولمپکس کے کوالیفائنگ مقابلوں میں 85 اعشاریہ 16 میٹرز دور جیولن پھینک کر فائنل راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ وہ کوالیفائنگ مقابلوں میں گروپ بی میں پہلے نمبر پر رہے تھے جبکہ مجموعی طور پر کوالیفائنگ راؤنڈ میں ان کی تیسری پوزیشن رہی تھی۔