کراچی: ڈیڑھ ماہ میں مغوی بچہ بازیاب نہ ہوسکا، اغوا کار کا خاکہ تیار ہوگیا


کراچی: کراچی پولیس کی نااہلی، لا اعتلالی، روایتی بے حسی اور غیر پیشہ ورانہ رویے کا ایک مرتبہ پھر اس وقت ثبوت ملا جب گزشتہ 42 روز سے اغوا دو سالہ معصوم ایان کی تلاش میں نہ صرف سرکاری اہلکار بری طرح ناکام رہے ہیں بلکہ صرف ایک اغوا کار کا تصویری خاکہ ہی بنوا سکے ہیں۔ متاثرہ والدین گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اپنے بچے کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھار ہے ہیں لیکن ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

کراچی: اغواکاروں نے معصوم بچے کی آنکھ میں ایلفی ڈال دی، مقدمہ درج

اپنے لخت جگر کی تلاش میں مارے مارے پھرتے والدین نے اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ ان کے مغوی بچے کی بازیابی کے لیے فوری طور پرہنگامی اقدامات اٹھائے جانے کے احکامات جاری کیے جائیں۔

ہم نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے معصوم ایان کے والدین نے کہا کہ میرے بیٹے کو کس نے اورکیوں اغوا کیا ؟ ہم نہیں جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے صرف اغوا کا مقدمہ درج کیا اور مبینہ اغوا کار کا تصویری خاکہ تیار جاری کیا ہے وگرنہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی وہ پیشرفت نہیں کرسکی ہے۔

پولیس کے تفتیشی افسر نے ہم نیوز سے بات چیت میں کہا کہ بچے کے اغوا کاروں کی جانب سے تاحال تاوان کے لیے بھی رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بچے کی تلاش کے لیے تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے رابطہ قائم کررکھا ہے۔

ہم نیوز کو پولیس کے تفتیشی افسرنے بتایا کہ معصوم ایان کے متعلق تمام تفصیلات سے فلاحی اداروں اور اسپتالوں کو بھی آگاہ کردیا ہے لیکن تاحال کسی نے بھی کوئی اطلاع نہیں دی ہے۔

مانسہرہ کی لڑکی لاہور سے اغوا،سندھ میں فروخت: بازیابی کے عدالتی احکامات جاری

پولیس کے تفتیشی افسر نے اس ضمن میں ہم نیوز کے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ بچے کو جس مقام سے اغوا کیا گیا وہاں کوئی بھی سی سی ٹی وی کیمرہ نصب نہیں تھا۔ انہوں ںے کہا کہ اگر کوئی کیمرہ ہوتا تو یقیناً مجرم کی تلاش میں کافی مدد ملتی۔

افسوسناک امرہے کہ قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی معصوم بچی زینب کی دوسری برسی پر قومی اسمبلی نے بچوں کے تحفظ کے لیے  ’زینب الرٹ بل‘ متفقہ طور پر منظورکیا لیکن حیرت انگیز طور پراس کا اطلاق صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تک محدود رکھا گیا ہے یعنی ملک کے دیگر تمام شہروں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔

زینب الرٹ بل کے تحت گمشدہ بچوں سے متعلق ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا اور جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کو10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔گمشدہ بچوں سے متعلق ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا۔ اور ہیلپ لائن1099 قائم کی جائے گی جس پر بچے کی گمشدگی، اغوا اور زیادتی کی اطلاع فوری طور پر ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، ہوائی و ریلوے اڈوں اور مواصلاتی کمپنیوں کے ذریعے دی جائے گی۔

بل کے مطابق بچوں سے متعلق جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کرنا ہوگا۔ جرم ثابت ہونے پرکم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال قید کی سزا دی جاسکے گی اور دس لاکھ روپے کا جرمانہ بھی ہوگا۔

کراچی سیف سٹی کا منصوبہ التوا کا شکار ہے، وزیراعلیٰ سندھ کا اعتراف

قومی اسمبلی سے پاس کردہ بل میں کہا گیا ہے کہ جو سرکاری افسردو گھنٹے میں بچے کے خلاف جرائم پر ردعمل نہیں دے گااسے بھی سزا دی جاسکے گی۔ 18 سال سے کم عمر بچوں کااغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے اور گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لئے زینب الرٹ جوابی ردعمل و بازیابی ایجنسی بھی قائم کی جائے گی۔

ہم نیوز کے مطابق یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ کراچی کو سیف سٹی بنانے کا منصوبہ التوا کا شکار ہے جس کا باقاعدہ اعتراف وزیراعلیٰ سندھ کرچکے ہیں۔

آئی جی سندھ کا پبلک سیفٹی کمیشن کو تفصیلات بتانے سے انکار، اندرونی کہانی

آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام معصوم بچے کی تلاش میں نہ ہونے والی پیشرفت پر کیا ایکشن لیتے ہیں؟ فی الحال معلوم نہیں ہے البتہ دو دن قبل انہوں نے پبلک سیفٹی کمیشن میں واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ جن پولیس اہلکاروں کی غفلت، لاپرواہی اور غیر پیشہ ورانہ رویے کے سبب عام شہری اندھی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا ہے؟ یہ بھی  وہ کمیشن کو نہیں بتا سکتے ہیں؟ ان کے اس مؤقف پر چھٹے اجلاس میں تلخ کلامی بھی ہوئی تھی۔


متعلقہ خبریں