نیب لاہور نے منظور وٹو سے پوچھ گچھ کے بعد سوالنامہ تھما دیا

فوٹو: فائل


لاہور: سابق وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوارمنظور احمد وٹو سے نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے مخصوص علاقوں سے تعلق رکھنے والے کم و بیش 400 افراد کی مبینہ بھرتیوں کے حوالے پوچھ گچھ کے بعد ریکارڈ کی مکمل تفصیلات فراہم کرنے کے لیے ایک سوالنامہ بھی تھما دیا جس کا جواب انہیں دس دن میں دینے کا پابند کیا گیا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو نیب لاہور میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔ انہیں یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن میں مبینہ غیرقانونی بھرتیوں کے کیس میں دوسری مرتبہ طلب کیا گیا تھا۔

پی پی پی پنجاب کے سابق صدر کو نیب لاہور کی جانب سے جب پہلی مرتبہ طلبی کا نوٹس بھیجا گیا تھا تو وہ ملنے والے نوٹس کی وصولی سے منحرف ہوگئے تھے مگر دوسرے نوٹس پرپیش ہوگئے۔

ہم نیوز ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ نیب کے پاس موجود ریکارڈ کے تحت مبینہ بھرتیاں اوکاڑہ، بھاولپور اور منڈی بہاؤ الدین کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی کی گئی تھیں۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی رہنما میاں منظور احمد وٹو نے نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ وہ پانچ سال وفاقی وزیر رہے مگر ان کی نہ تو بیرون ملک کوئی جائیداد ہے اور نہ ہی بینک اکاؤنٹس ہیں۔

ہم نیوز کو ذرائع نے بتایا کہ نیب افسران کے سامنے سابق وفاقی وزیرمیاں منظور احمد وٹو نے اپنے خلاف سیاسی مخالفین کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں کی شکایات کے انبار لگا دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تین سال جیل کاٹی اور 1997 کے بعد ان کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی سیاسی کیسوں میں گرفتار کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق نیب حکام نے دوران تحقیق مؤقف اختیار کیا کہ یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ بیشتر بھرتیاں غیرقانونی طور پر اور ضرورت سے زائد کی گئیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ آپ کی منظوری سے ہوئیں یا نہیں؟

ہم نیوز کو ذرائع نے بتایا کہ نیب کے تحقیقی و تفتیشی افسران کا استدلال تھا کہ بحیثیت وزیر آپ کے علم  میں لائے بغیر اتنی کثیر تعداد میں آپ کی وزارت میں من پسند افراد کی بھرتیاں کیونکر اور کیسے ہو گئیں؟

سابق وفاقی وزیر میاں منظور احمد وٹو نے نیب لاہور کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات دینے کے لیے دس دن کا وقت مانگ لیا۔

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن میں ہونے والی 400 سے زائد مبینہ طور پر غیرقانونی بھرتیوں کے  الزام میں طلب کررکھا تھا۔

ہم نیوز کو اس ضمن میں معلوم ہوا ہے کہ میاں منظور احمد وٹو پر یہ الزام بھی ہے کہ 2008 سے لے کر 2013 تک کے درمیانی عرصے میں انہوں نے بحیثیت وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار 200 سے زائد ایریا منیجرز بھرتی کیے تھے۔

نیب کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق سابق وفاقی وزیر نے مبینہ طور پر کچھ من پسند افراد کو نوازنے کے لیے دس یوٹیلٹی اسٹورز پر ایک ایریا منیجر بھی تعینات کیا تھا۔

نیب نے یوٹیلٹی اسٹورز کارپویشن سے میاں منظور احمد وٹو کے دور میں ہونے والی تعیناتیوں کا ریکارڈ بھی طلب کررکھا ہے۔ چیئرمین نیب نے سابق وفاقی وزیر کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی۔

نیب لاہورمیں پیشی کے بعد میاں منظور احمد وٹو نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 2008 میں یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن میں بھرتیاں ہوئیں اس لیے نیب نے بلایا تو آیا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ نیب سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے ایک سوالنامہ دیا ہے جس کا جائزہ لینے کے بعد جواب دوں گا۔ انہوں نے بتایا کہ دس روز بعد سوالنامے کا جواب دینا ہے۔

ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بعد مزید 1500 یوٹیلٹی اسٹورز قائم کیے تو 3500 نوکریاں نکلیں جن پر بھرتی کے لیے اشتہار دیے اور کمیٹیاں بنائیں۔

میاں منظور احمد وٹو نے دعویٰ کیا کہ ہونے والی بھرتیاں بالکل ٹھیک ہوئیں اور نیب کو بھی یہی بتاؤں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن سے عام آدمی کو بہت فائدہ پہنچ رہا ہے۔

ذرائع ابلاغ کی جانب سے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں انہوں نے معنی خیز انداز میں کہا کہ ہارنے والی یونین نے جیتنے والی یونین کے خلاف درخواست دی ہے۔


متعلقہ خبریں