چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ یونیورسٹیاں پاکستان کا مستقبل ہیں، منظم طریقے سے اسے تباہ کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ملک بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے سرکاری جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری پر ایک ماہ میں پیشرفت رپورٹ اور کنٹرولر امتحانات اور ڈائریکٹر فنانس کی خالی آسامیوں کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
ہم کچھ کرتے نہیں ، اس کا یہ مطلب نہیں ، پتھر پھینکتے جاؤ، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو عدالتی معاونت سے متعلق رول 27 اے کا علم ہے؟ آپ کو بنیادی بات کا ہی علم نہیں سندھ کیلئے دعا ہی کرسکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے قانون کی تعلیم کہاں سے حاصل کی اور کبھی کوئی کیس چلایا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں بیٹھے افسران کیا مکھیاں مار رہے ہیں؟ منظم طریقے سے پاکستان کے مستقبل کو تباہ کیا جا رہا ہے، ملک میں سب کچھ آہستہ آہستہ زمین بوس ہو رہا ہے، جس طرح پی آئی اے میں تباہی ہوئی اسی طرح یونیورسٹیز میں بھی ہو رہی ہے۔
سرکاری جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری پر ایک ماہ میں پیشرفت رپورٹ طلب
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر سیاسی مخالفین کا غصہ نظر آتا ہے ، تعلیم کے معاملے پر ٹی وی چینلز میں کوئی پروگرام نہیں ہوتے ، گالم گلوچ کے اعداد وشمار جاری ہوں توپاکستان کی پہلی پوزیشن ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ اسکولوں کو تباہ کر کے کہتے ہیں ہم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں، اسکولوں کو تباہ کرنے والوں سے حکومتیں پھر مذاکرات بھی کرتی ہیں۔
جسٹس بابر ستار کے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت نہیں ، اسلام آباد ہائیکورٹ
سماعت کے دوران ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ملک بھر کی یونیورسٹیوں سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔ جس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں کل 154 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔ 66 یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کے لیے اضافی چارج دیا گیا ہے یا عہدے خالی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کی 29 یونیورسٹیوں میں سے 24 پر مستقل وائس چانسلر تعینات ہیں جبکہ 5 خالی ہیں۔
بلوچستان کی 10 یونیورسٹیوں میں سے 5 میں وائس چانسلرز تعینات جبکہ 5 میں ایکٹنگ وی سی موجود ہیں۔ پختونخوا کی 32 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 10 پر مستقل وی سی ، 16 پر اضافی چارج اور 6 خالی ہیں۔
سپریم کورٹ ، مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل
اسی طرح پنجاب کی 49 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 20 پر مستقل اور 29 پر قائم مقام وی سی تعینات ہیں جبکہ سندھ کی 29 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 24 پر مستقل اور 5 پر اضافی چارج پر وی سی تعینات ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے خیبر پختونخوا کے وکیل سے کہا کہ جو نام فائنل کیے ہیں وہ کہاں ہیں؟ وکیل نے کہا کہ نام پبلک نہیں کیے گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عوام سے کیا دشمنی ہے جو نام چھپائے جا رہے ہیں، کیا یہ ایٹمی کوڈز ہیں یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی ؟
ٹیکس سے تنخواہ لیتے ہیں اور عوام سے معلومات چھپائی جا رہی ہیں، ہر جگہ اپنا بندا فٹ کرنے کیلئے ہی چیزوں کو خفیہ رکھا جاتا ہے، لگانا ہو گا کسی ایم پی اے کا چاچا ماما یا بھائی کو۔
بدقسمتی سے ہر غلط کام بیوروکریسی کی ملی بھگت سے ہوتا ہے، ایک سرکار بھی ٹھیک نہیں چل رہی ، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی سے ہر غلط کام بیوروکریسی کی ملی بھگت سے ہی ہوتا ہے، ملک میں کوئی ایک سرکار بھی ٹھیک نہیں چل رہی، لگتا ہے ہم کسی دشمن ملک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ صرف تعلیم کا شعبہ ٹھیک کر دیں پورا ملک ٹھیک ہو جائے گا، گورنر کیا اتنے مصروف ہیں کہ ناموں پر فیصلے کا وقت نہیں مل رہا؟۔