سپریم کورٹ کا انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا حکم

سپریم کورٹ supreme court سیاستدانوں کی تختیاں

الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی تاریخ دے دی، عام انتخابات11 فروری کو ہوں گے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے سپریم کورٹ میں عدالت کو عام انتخابات کی تاریخ بارے آگاہ کیا،

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی کی طرف سے سپریم کورٹ میں دلائل دیے گئے، وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن 11 فروری کو عام انتخابات کراسکتاہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ چار فروری کو پہلا اتوار ہے اور دوسرا اتوار گیارہ فروری ہے، اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کیا صدر مملکت اس سارے عمل میں آن بورڈ ہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے صدر سے مشاورت نہیں کی، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سوچ سمجھ کر جواب دیں، آپ کا ادارہ آئینی ہے۔

انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ، پی ٹی آئی پر کوئی پابندی نہیں ، نگران وزیراعظم

جسٹس اطہر من اللہ نے ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن آج ہی صدر مملکت سے مشاورت کرے، وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ حلقہ بندی کے بعد 54 دن کا انتخابی شیڈول ہوتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ کیا صدر مملکت کو تاریخ سے آگاہ کیا ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق صدر کو بتانےکے پابند نہیں۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ آئین کی خلاف ورزی کی ذمہ داری لے رہے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن ابھی جا کر صدر سے کیوں نہیں ملاقات کرتا؟

وکیل سجیل سواتی نے عدالت کو جواب دیا کہ الیکشن کمیشن سے ہدایات لیکر بتا سکتا ہوں، چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ابھی جائیں اور پتہ کرکے بتائیں۔

اس سے قبل 90 روز میں انتخابات کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ میں لکھوں گا کہ 54 دنوں کا شیڈول سامنے رکھتے ہوئے صدر الیکشن کی تاریخ دیں۔

عام انتخابات قریب ، منصفانہ اور شفاف انعقاد یقینی بنائیں گے ، چیف الیکشن کمشنر

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اپنے ہاتھ کھڑے کر کے کہہ رہے ہیں جا وعدالت سے رائے لے لو، صدر نے صرف بتایا ہے 89 دن فلاں تاریخ بنتی ہے، صدر کی گنتی تو ٹھیک ہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات میں التوا کے لیے الیکشن کمیشن سمیت سب ذمہ دار ہیں، مقررہ مدت سے اوپر وقت گزرنے کے بعد ہر دن آئنی خلاف ورزی ہورہی ہے۔

سپریم کورٹ بار اور پی ٹی آئی سمیت دیگر کی درخواستوں پر 90 روز میں الیکشن سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ نے کی۔ 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔

الیکشن کمیشن حکام، اٹارنی جنرل اور پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک بھی عدالت میں موجود تھے۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کے آغاز میں کہا کہ اپنی استدعا کو صرف ایک نقطہ تک محدود کروں گا، استدعا ہے کہ الیکشن ٹائم کے مطابق وقت پر ہونے چاہیے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے پیپلزپارٹی کو مقدمہ میں فریق بننے کی اجازت دے دی ہے، انتخابات 90 روز میں کروائے جائیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی 90 دنوں میں انتخابات کی استدعا تو اب غیرموثر ہو چکی ہے۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کی رائے جاننے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔

وزارت داخلہ ایک شخص کو پیش نہیں کر سکتی تو انتخابات کیسے کرائے گی ؟ الیکشن کمیشن

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے سوال کیا کہ اب آپ صرف انتخابات چاہتے ہیں؟، اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ جی ہم انتخابات چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ میرا نہیں خیال کوئی اس کی مخالفت کرے گا، اس دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ مخالفت کریں گے؟، جس جواب اٹارنی جنرل نے انکار میں دیا۔ وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 58 اور 224 پڑھا جا سکتا ہے، انتخابات نہیں ہوں گے تو نہ پارلیمنٹ ہوگی نہ قانون بنیں گے، انتخابات کی تاریخ دینا اور شیڈول دینا دو چیزیں ہیں، الیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے، صدر اسمبلی تحلیل کرے تو 90 دن کے اندر کی الیکشن تاریخ دے گا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا یہ تاریخ دینے کیلئے صدر کو وزیر اعظم سے مشورہ لینا ضروری ہے، اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ مشورہ لینا ضروری نہیں ہے، صدر کا اپنا آئینی فریضہ ہے کہ وہ تاریخ دے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا صدر نے الیکشن کی تاریخ دی ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری رائے میں صدر نے تاریخ دے دی ہے تاہم الیکشن کمیشن نے اس پر کہا کہ یہ صدر کا اختیار نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وہ خط دکھا سکتے ہیں جس میں صدر نے تاریخ دی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صدر نے تاریخ دینے کا حکم دینا ہے، حکومت نے اسے نوٹیفائی کرنا ہے، چیف جسٹس نے دوبارہ کہا کہ صدر نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے؟، اس پر وکیل علی ظفر نے صدر کا خط پڑھ کر سنا دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر کیا آپ کہہ رہے ہیں صدر نے اپنا آئینی فریضہ ادا نہیں کیا، 9 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوئی اور صدر نے ستمبر میں خط لکھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے صدر نے تاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اختلاف کرنے والے چاہیں اختلاف کرتے رہیں، ہم اس معاملہ کا جوڈیشل نوٹس بھی لے سکتے ہیں، آخری دن جا کر خط نہیں لکھ سکتے۔

الیکشن کمیشن نے پولنگ اسٹیشنز کی تفصیلات جاری کر دیں

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں صدر نے الیکشن کی تاریخ تجویز کر دی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم سے اب کیا چاہتے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم صدر کو ہدایت جاری کریں کہ آپ تاریخ دیں، صدر کہتے ہیں فلاں سے رائے لی فلاں کا یہ کہنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اب یہ عدالت صدر کے خلاف رٹ جاری کر سکتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 98 بہت واضح ہے اس پر اس عدالت کا کردار کہاں آتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق تاریخ دینا صدر کا اختیار ہے، پھر آپ بتائیں کہ کیا اس عدالت کو بھی تاریخ دینے کا اختیار ہے، اگر صدر نے بات نہ مانی تو ہم انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صدر مملکت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جس دن قومی اسمبلی تحلیل ہوئی اسی دن صدر تاریخ دیتے تو کوئی بھی اعتراض نہ اٹھا سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے پوری مشینری شامل ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ انتحابات کی تاریخ دے سکتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی کہا کہ صدر تاریخ دے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتحابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہمارا ہے، صدر مملکت کی تاریخ نہ دینے کے پہلو کو ایک طرف رکھ کر ہمیں سپریم کورٹ کو بھی دیکھنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم صدر کے خلاف جا کر خود انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، آئین پاکستان نے ہمیں تاریخ دینے کا اختیار کہاں ہے۔علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک مرحلے میں مداخلت کر چکی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس وقت سوال مختلف تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کا انعقاد تو اچھی چیز ہے پرابلم نہیں ہے، آپ کے لیڈر صدر کے بھی لیڈر ہیں، صدر فون کر کے کیوں نہیں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ دیں۔جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کی دلیل تو یہ ہے کہ صدر نے آئین سے انحراف کیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بادی النظر میں حکومت،الیکشن کمیشن اور صدر مملکت تینوں ذمہ دار ہیں، اب سوال یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے، انتخابات تو وقت پر ہونے چاہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب کیا آپ سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ آپ صدر کو ایک فون کر کے کیوں نہیں کہتے کے تاریخ دیں، علی ظفر نے کہا کہ وہ صدر پاکستان ہیں پورے ملک کے صدر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم سے ان کے خلاف کارروائی چاہ رہے ہیں، صدر اپنے ہاتھ کھڑے کر کے کہ رہے جاو عدالت سے رائے لے لو، صدر پھر خود رائے لینے آتے بھی نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات میں التوا کے لیے الیکشن کمیشن سمیت سب ذمہ دار ہیں، مقررہ مدت سے اوپر وقت گزرنے کے بعد ہر دن آئنی خلاف ورزی ہورہی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے صرف بتایا ہے 89 دن فلاں تاریخ بنتی ہے، صدر کی گنتی تو ٹھیک ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں یا ان کے وکلا ء کو صدر سے ملاقات میں مت لے جایا جائے، صدر مملکت اور الیکشن ملاقات کیلئے اٹارنی جنرل اپنی خدمات پیش کریں، چیف جسٹس نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ صدر کے ساتھ ملاقات ملٹری سیکریٹری بھی ہوں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ عدالت چاہتی ہے معاملہ حل ہو ،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مشاورت کے بعد تاریخ کے ساتھ آئیں ہم حکم نہیں دیں گے،کسی بحث میں نہیں پڑھنا چاہتے ،جو بھی تاریخ دیں وہ تبدیل نہیں ہو گی، کسی بھی حالات میں انتخابات کی تاریخ میں توسیع درخواست نہیں لیں گے، صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات نہیں لے رہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت اپنے حکم میں تاریخ کے بارے میں فائنلائزڈ کا لفظ لکھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرڈر کی 2سرٹیفائیڈ کاپیاں اٹارنی جنرل کو فراہم کریں، ایک کاپی صدر دوسری الیکشن کمیشن کو فراہم کریں۔

وکیل پیپلزپارٹی فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ آج کی سماعت میں بہت کچھ حاصل کیا ہے ، تحریری حکم نامے میں عدالت نے لکھا کہ عدالت کو عام انتخابات کے ٹائم فریم سے متعلق بتایا گیا، الیکشن کمیشن کے ممبران آج صدر سے ملاقات کریں، حکمنامہ میں کہا گیا کہ صدر سے ملاقات میں انتخابات سے متعلق امور پر گفتگو کریں۔

عدالت نے اپنے حکم کہا کہ اٹارنی جنرل ایوان صدر سے رابطہ کریں گے، ان کو عدالتی حکمنامہ بھی دیں، چیف جسٹس نے کہا کہ جو بھی طےہوگا اس پر سب کے دستخط موجود ہونگے۔

عوام کی شرکت کیلئے الیکشن کمیشن چاہتا ہے انتخابات 11 فروری کو ہوں، سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن آج صدر سے ملاقات کرکے انتخابات کی تاریخ کا تعین کرے، صدر اور الیکشن کمیشن میں بھی طے ہو عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا جائے، تحریر پر صدر اور الیکشن کمیشن کے دستخط ہونا لازمی ہیں۔

الیکشن کمشنر اپنے ممبران سے خود مشاورت کرے، آج کے عدالتی حکم پر ابھی دستخط کرینگے، عدالتی حکم کی تصدیق شدہ نقول صدر، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی، سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔


متعلقہ خبریں