مقبوضہ کشمیر: صحافیوں کے گھروں پر چھاپے، صحافت کیخلاف کریک ڈاؤن

مقبوضہ وادی کشمیر: بھارتی فوج کے میجر نے خود کشی کر لی

سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں پولیس نے حسب معمول چادر و چہار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے صحافیوں کے گھروں پہ چھاپے مارے ہیں جس سے آزادی صحافت کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے اور سخت کریک ڈاؤن شروع کیے جانے کا عندیہ ملا ہے۔

مقبوضہ کشمیرمیں تیسرے روز بھی کڑے پہرے،موبائل اورانٹرنیٹ بند

عالمی نشریاتی و خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق مقبوضہ وادی چنار کے شہر سری نگر میں پولیس و سیکیورٹی ایجنسیز کی جانب سے مارے جانے والے چھاپوں کے بعد چار صحافیوں کو باقاعدہ تھانوں میں طلب کیا گیا جہاں ان سے پوچھ گوچھ کی گئی لیکن چھاپے مارے جانے کی وجہ تاحال نہیں بتائی گئی ہے۔

خبر رساں ایجنسی کے مطابق چھاپوں کے دوران پولیس صحافیوں اوران کی شریک حیات کے موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور دیگر اہم دستاویزات و الیکٹرانک آلات بھی لے کر چلی گئی ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق جن صحافیوں کے گھروں پہ چھاپے مارے گئے ہیں ان میں سے تین غیر ملکی خبر رساں اداروں سے وابستہ ہیں جب کہ ایک ماہنامہ نیوز میگزین کے ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

سید علی گیلانی کی میت کیوں چھینی؟ بھارتی ناظم الامور کی دفتر خارجہ طلبی

اس حوالے سے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے چاروں صحافیوں کی شناخت کشمیر نریٹر میگزین کے ایڈیٹر شوکت مٹہ، ٹی آر ٹی ورلڈ اور ہفنگٹن پوسٹ سے منسلک ہلال میر اور فری لانسر اظہر قادری اور عباس شاہ کے نام سے کی ہے۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے کارروائی کو دھمکی آمیز رویہ قرار دیتے ہوئے صحافیوں کی رہائش گاہوں پر پولیس چھاپوں کی سخت مذمت کی ہے۔

بھارت کی جانب سے اگست 2019 میں خطے کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے فیصلے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کئی مہینوں تک صحافت پر سکوت طاری ہو گیا تھا۔

سید علی گیلانی کے لواحقین کیخلاف مقدمہ درج

بھارت نے گزشتہ سال جون میں ایک متنازع میڈیا پالیسی متعارف کرائی تھی جو حکومت کو آزادانہ رپورٹنگ کو سینسر کرنے کا وسیع اختیار فراہم کرتی ہے۔


متعلقہ خبریں