جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا ہے کہ کھل کر بات کرنے کی آڑ میں جو منہ میں آئے بولنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
شوکت عزیز صدیقی کے کیس میں انہوں نے ریمارکس دیئے کہ تمام ججز ضمیر کے قیدی ہیں اور انصاف فراہم کرنے کیلئے کام کرتے ہیں۔ ججز فیصلوں میں ایک دوسرے سے اختلاف ضرور کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا شوکت عزیز صدیقی نے عدلیہ کے حوالے سے بہت منفی تقریر کی۔ جس عدلیہ کو برا کہا اب اسی میں واپسی کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔
ممکن ہے اس وقت اپنے خلاف ریفرنسز کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی پریشان ہوں۔ عدلیہ نے شوکت عزیز صدیقی کے حقوق کا تحفظ کیا تھا۔ جواب میں دو ماہ بعد شوکت عزیز صدیقی نے عدلیہ کیساتھ جو کیا وہ بھی دیکھیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی چیلنج ہوسکتی ہے؟
حامد خان نے کہا کہ ماضی میں سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کیخلاف اپیلیں سنتی رہی۔ جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ ماضی کے مقدمات میں جوڈیشل کونسل کی حتمی سفارش نہیں آئی تھی۔ شوکت عزیز صدیقی کیخلاف کونسل سفارش پر عمل بھی ہوچکا۔
حامد خان نے کہا کیا جج کو صرف ایک انتظامی انکوائری کے رحم و کرم پر چھوڑا جا سکتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہمارا کام آئین میں گنجائش پیدا کرنا نہیں ہے۔
جج کی برطرفی کی سفارش سینئر ججز کرتے ہیں کوئی اور نہیں۔ اس کیس میں پہلے آرٹیکل 211 کی رکاوٹ عبور کرنا ہوگی۔