مذاہب کے درمیان مکالمے قیام امن میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں، جرمن صدر

مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے قیام امن میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں، جرمن صدر

برلن: جرمنی کے صدر اشٹائن مائر نے دعویٰ کیا ہے کہ عالمی سطح پر مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے معاشروں میں قیام امن کے لیے مفید و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی اعتقاد زبردست امکانات کے حامل ہوتے ہیں۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق جرمنی کے صدر نے یہ بات ین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی جو ‘مذاہب برائے امن‘ کے عنوان سے منعقد ہورہی ہے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ تمام مذاہب کے لوگوں کو یکجا کر گیا، مولانا نظام الحق تھانوی

جرمنی کے صدر اشٹائن مائر نے کہا کہ مذہبی اعتقاد ایک ایسی قوت ہے جس سے کوئی بھی شخص اپنی پوری زندگی کو نئی جہت دے سکتا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اس قوت کا غلط استعمال بھی ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی مقاصد اور غیر مذہبی اہداف کے حصول کے لیے بھی مذاہب کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

خبررساں ادارے کے مطابق جرمنی میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں دنیا کے 100 سے زائد ممالک شریک ہیں۔ شرکا میں دنیا کے دس بڑے مذاہب سے تعلق رکھنے والے تقریباً 900 افراد کو مدعو کیا گیا ہے۔

بین الاقوامی کانفرنس میں مذہبی رہنماؤں و اسکالروں کے علاوہ قیام امن کے لیے دنیا میں کام کرنے والی مختلف تنظیموں سے وابستہ افراد مدعو ہیں تو ساتھ ہی اقوام متحدہ کے اہم ذمہ داران بھی شرکائے کانفرنس میں شامل ہیں۔

مذہب برائے امن کانفرنس کا یہ دسواں بین الاقوامی اجتماع ہے جس میں زیادہ توجہ حصول امن کے لیے مختلف مذاہب کے درمیان مل جل کر کام کرنے پہ مرکوز ہے۔

خبررساں ایجنسی کے مطابق اس کانفرنس کے انعقاد کا سب سے پہلا تصور 1961 میں پیش کیا گیا تھا جس کے بعد پہلی بین الاقوامی کانفرنس 1971 میں جاپان میں منعقد ہوئی تھی۔

مذہبی آزادیوں سے متعلق امریکی رپورٹ میں بھارت کا پردہ فاش

جرمنی کے نشریاتی ادارے ’ڈی ڈبلیو‘ کے مطابق بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید شریک ہیں جنہوں نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام بین المذاہب ہم آہنگی کا درس دیتا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں ان کا دعویٰ تھا کہ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ مذاہب کی من مانی تشریحات سے اجتناب برتا جائے اور اسے کردار کی تعمیر و بھائی چارے کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے۔

جرمنی کے نشریاتی ادارے کے مطابق کانفرنس میں مختلف موضوعات پر گفتگو کے ساتھ ساتھ دنیا کے مذہبی یا مسلکی بنیادوں پر موجود تنازعات کے شکار خطوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے مابین مکالمے ہوئے جن میں عراق، سوڈان اور میانمار جیسے ممالک شامل تھے۔


متعلقہ خبریں