’کسی پاکستانی خاتون کو جسم فروشی کے پیشے پر مجبور نہیں کیا گیا‘

غیر ملکی سرمایہ کاری

فوٹو: فائل


اسلام آباد: پاکستانی لڑکیوں کی چینی باشندوں سے جعلی شادیوں کے معاملے پر چینی سفارت خانے کا مؤقف بھی سامنے آگیا جس کے مطابق کسی پاکستانی خاتون کو جسم فروشی کے پیشے پر مجبور نہیں کیا گیا اور نہ ہی انسانی اعضا کی فروخت کے الزامات درست ہیں۔

سفارت خانے کے اعلامیے کے مطابق چین پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ شادیوں کے غیرقانونی کاروبار پر پاکستانی اور چینی شہریوں کو دھوکے بازوں سے خبردار رہنا چاہئے۔

چینی سفارتخانے کا مزید کہنا تھا کہ ہم چند مجرموں کو پاک چین دوستی پر اثر انداز نہیں ہونے دیں گے۔

مزید پڑھیں: انسانی اسمگلنگ کا معاملہ،عوام افواہوں پر توجہ نہ دیں، ترجمان چینی سفارتخانہ

خیال رہے کہ پاکستانی میڈیا میں ان دنوں چینی باشندوں کی جانب سے لڑکیوں سے شادی کرکے انہیں چین لے جاکر ان کے اعضا کی فروخت اور جسم فروشی پر مجبور کرنے سے متعلق خبریں سرگرم ہیں۔

اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملک کے مختلف حصوں سے درجنوں افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔

آج گوجرانوالہ کے نواحی علاقے کی رہائشی ایک لڑکی چین سے بھاگ کر  پاکستان واپس پہنچی۔

گوجرانوالہ میں تین دنوں میں  چینی گروہ کا شکار بننے والی یہ تیسری متاثرہ لڑکی سامنے آئی ہے۔

لڑکی کی شادی گزشتہ سال اکتوبر میں لی تاؤ نامی چینی شہری  سے کروائی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:چینی باشندوں سے شادی  کا معاملہ، دو بڑے اشتہاری گرفتار 

چین سے بھاگ کر آنے والی لڑکی نے گوجرنوالہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ روبنسن نامی محلہ دار نے اس کے والدین کو سبز باغ دکھا کر شادی لی تاو سے کروائی۔

ہم نیوز سے گفتگو میں متاثرہ لڑکی نے الزام عائد کیا کہ اس کا چینی شوہر لی تاؤ اسے چین میں تشدد کا نشانہ بھی بناتا تھا۔

لڑکی نے بتایا کہ اس کے شوہر نے اس کا پاسپورٹ اور ضروری دستاویزات بھی چھین لئے تھے۔

لڑکی نے بتایا کہ اس نے پولیس میں کیس کیا اور پاکستانی سفارت خانے کی مدد سے واپس پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے۔


متعلقہ خبریں