اتوار کے ضمنی انتخابات حکومت کے لیے ‘منی جنرل الیکشن‘


اسلام آباد: اتوار کے روز ملک بھر کے 35 قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات ایک منی جنرل الیکشن کی صورت اختیار کر گئے ہیں کیونکہ ان انتخابات کے نتائج پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اپوزیشن خاص کر حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں قومی اور پنجاب اسمبلی کے 11، 11 حلقوں کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا اسمبلی کے 9، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے 2، 2 حلقوں میں ووٹنگ ہو گی۔

پاکستان تحریک انصاف کی مرکز میں اتحادی حکومت چند ووٹوں کی اکثریت پر کھڑی ہے۔ مبصرین کے مطابق مرکزی حکومت کے کچھ اتحادیوں کا چند معاملات پر حکومت سے اختلاف ہے۔

اس سلسلے میں بی این پی مینگل اور ایم کیو ایم کا نام لیا جاتا ہے۔ اگر یہ اختلافات شدید ہوتے ہیں تو مرکزی حکومت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے مبصرین کہتے ہیں کہ اتوار کے ضمنی انتخابات تحریک انصاف کے لیے نہایت اہم ہے۔

قومی اسمبلی کی 11 نشستوں میں سے چھ نشستیں تحریک انصاف نےعام انتخابات میں جیتی تھی جن میں سے عمران خان کی خالی کردہ چار نشستیں بھی شامل ہے، ایک نشست وفاقی وزیر علام سرور خان نے خالی کی ہے کیونکہ انہوں نے قومی اسمبلی کے  دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ چھٹی نشست تحریک انصاف کے سنئیر رہنما عارف علوی نے صدر پاکستان منتخب ہونے کے بعد خالی کی۔

تحریک انصاف نہ صرف اپنی خالی کردہ نشستیں بلکہ اضافی نشست بھی جیتنے کی کوشش کرے گی تاکہ قومی اسمبلی میں اپنی پوزیشن مزید مضبوط کرسکے۔

دوسری طرف یہ انتخابات اپوزیشن کے لیے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہے۔  سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی اہم جماعت مسلم لیگ (ن) ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے عام انتخابات کے حوالے سے اپنے بیانیہ کو تقویت دے سکتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا الزام ہے کہ عام انتخابات ان سے چھینا گیا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت دھاندلی اور سیاسی انجئیرنگ  کی پیداوار ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اگر ن لیگ کو ان انتخابات میں اپنی جیتی گئی نشستوں کے علاوہ کوئی اضافی نشست ملتی ہے تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہوگی اور پارٹی کے بیانیہ کے تقویت کا باعث بنے گی۔

ضمنی انتخابات والے قومی اسمبلی کے حلقے

اتوار کے انتخابی دنگل میں پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ نواز، پیپلزپارٹی، ایم ایم اے، ایم کیوایم کے علاوہ دیگر جماعتیں اور آزاد امیدوار شامل ہے ۔ قومی اسمبلی کی نشستوں میں این سے 35 بنوں، این اے 53 اسلام آباد، این اے 60 راولپنڈی، این اے 63 ٹیکسلا، این اے 103 فیصل آباد، این اے 65 چکوال، این اے 69 گجرات، این اے 124 لاہور، این اے 131 لاہور، این اے 243 کراچی اور این اے 247 کراچی شامل ہیں۔

پنجاب میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ضمنی انتخاب کیلئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے، لاہور میں 2 قومی اور 2 صوبائی حلقوں سے پیپلز پارٹی کے امیدوار الیکشن سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ اس کے جواب میں ن لیگ نے سندھ خصوصاً کراچی میں پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

عام انتخابات میں آر ٹی ایس کی ناکامی اور اس پر شدید تنقید سامنے آنے کے باوجود الیکشن کمیشن نے اس سسٹم کو دوبارہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ضمنی انتخابات کے بڑے مقابلے

کل کے ضمنی انتخابات کے اہم مقابلوں میں لاہور کے حلقہ این اے 124 پر ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی اور پی ٹی آئی کے دیوان محی الدین اور لاہور ہی کے حلقہ این اے 131 میں مسلم لیگ نون کے رہنما سعد رفیق اور تحریک انصاف کے ہمایون اختر کے درمیان مقابلہ شامل ہے۔

اس کے علاوہ این اے 243 کراچی میں وفاقی حکومت میں دو اتحادیوں ایم کیو ایم پاکستان اور پی ٹی آئی کے درمیان  بھِی کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ این سے 35 بنوں میں ایم ایم اے اور تحریک انصاف کے درمیان کانٹے کا جوڑ پڑنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

قومی اسمبلی کی 11 میں سے 4 نشستیں وزیراعظم عمران خان نے چھوڑی تھی، جنہوں نے مجموعی طور پر قومی اسمبلی کے 5 حلقوں سے انتخاب لڑا اور کامیاب ہونے کے بعد این اے-35 بنوں، این اے-53 اسلام آباد، این اے-131 لاہور اور این اے-243 کراچی کی نشست خالی کردی جبکہ میانوالی کی نشست محفوظ رکھی۔

پاکستان تحریک انصاف کے  ہی اتحادی مسلم لیگ ق کے رہنما چودھری پروز الہی نے گجرات اور جہلم کی قومی اسمبلی کی نشستیں چھوڑی تھی۔ پرویز الہی نے صوبائی اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھ لی ۔ واضح رہے پرویز الہی نے تمام نشستیں تحریک انصاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجہ میں جیتا تھا۔

جبکہ لاہور کی تین میں سے دو نشستیں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ شہباز شریف اور انکے صاحبزادے حمزہ شہباز نے چھوڑی تھیں۔ حمزہ نے صوبائی اسمبلی کی نشست رکھ لی تھی جبکہ شہباز شریف دو حلقوں سے کامیاب ہوگئے تھے۔  لاہور کی تیسری نشست عمران خان نے خالی کی تھی۔

این اے 60 راولپنڈی میں انتخابات مسلم لیگ کے رہنما حنیف عباسی کی ایفڈرین کیس میں سزا کے نتیجہ میں نااہلی کو صورت میں ملتوی ہوئے تھے۔

فوج نے کنٹرول سنبھال لیا

پاک فوج کے اہلکار کل ہونے والے انتخابات  کے لیے آج ملک بھر میں پولنگ اسٹیشنز کی سیکیورٹی سنبھال لی ہیں۔ فوج کے جوان پیر تک پولنگ اسٹیشن پر تعینات رہیں گے جبکہ انتخابات کے دن فوجی جوان پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر خدمات سرانجام دیں گے۔  الیکشن کمیشن کے ریٹرنگ افسران نے آج بیلٹ پیپرز پریزائنڈنگ افسران کے حوالہ کر دیں۔

ضنمی انتخابات والے 35 حلقوں میں پولنگ اسٹیشنز کی مجموعی تعداد 7 ہزار 4 سو 89 ہے جن میں رجسٹر ووٹرز کی تعداد 92 لاکھ 83 ہزار سے زائد ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 35 حلقوں کے ایک ہزار 727 پولنگ اسٹیشن حساس ترین قرار دیے گئے ہیں۔

سب سے زیادہ 195 حساس پولنگ اسٹیشنز این اے 35 بنوں کے ہیں جبکہ این اے 56 اٹک کے 186 پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا گیا۔ اسی طرح گجرات میں قومی اسمبلی کے این اے 69 میں 96 اور کراچی کے این اے 243 میں 92 پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا گیا۔

سمندرپار پاکستانی پہلی مرتبہ ووٹ کا حق استعمال کرینگے

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان ندیم قاسم کے مطابق ای  ووٹنگ سسٹم کے تحت اب تک بیرون ملک مقیم 7 ہزار 3 سو 16 ووٹرز کی رجسٹریشن ہوئی ہے اور اوورسیز ووٹرز کو 14 اکتوبر کو صبح 8 سے شام 5 بجے تک ووٹ ڈالنے کی اجازت ہو گی۔

ترجمان نے کہا کہ  بیلٹ پیپرز، بیلٹ باکس اور دیگر تمام ضروری اشیا متعلقہ پریذائیڈنگ آفیسر کے سپرد کر دی گئی ہیں۔


متعلقہ خبریں