اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے آڈیٹر جنرل کو حکم دیا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کا آڈٹ دس ہفتوں میں مکمل کیاجائے اورایم ڈی پی آئی اے تمام متعلقہ دستاویزات آڈیٹر کو دینے کے پابند ہوں گے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس منیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے پی آئی اے کے اثاثوں کی فروخت سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ پی آئی اے کا وہ حال ہو چکا جس کی مثال نہیں مل رہی اب ادارہ کا صرف وہ حال ہے کہ اسے فروخت ہی کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے نے استفسار کیا کہ ادارے کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟
بینچ کے رکن جسٹس منیب نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ادارے میں کرپشن کا کلچر عام ہے تقرریوں کے 100 کیسز اٹھائیں وہاں کرپشن ہی ملے گی۔
آڈیٹرجنرل آف پاکستان کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ھمارا ادارہ 1956 سے پی آئی اے سمیت او جی ڈی سی ایل اور دیگر اداروں کا آڈٹ کررہا ہے مہتاب عباسی آڈیٹر جنرل کے ادارے پر اعتراض کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے انہوں نے ایک سوئپنگ سٹیٹمنٹ دیا ہے۔
دورکنی بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ نجی آڈیٹرسے آڈٹ کرایا جائے تو خرچہ خود برداشت کرے ادارہ 50 لاکھ کی
فیس ادا نہیں کر سکتا اوراٹارنی جنرل نے بھی آڈیٹر جنرل سے آڈٹ کرانے کی حمایت کی ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے آڈیٹر جنرل کو آڈٹ کے لیے دس ہفتوں اور ٹی اور آرز میں تبدیلی کے لیے دس دن کا وقت دیتے ہوئے حکم دیا کہ ڈاکٹر فرخ سلیم بھی وطن واپس آجائیں اور تمام شراکت دار اگر تبدیلی چاہتے ہیں تو اپنی رائے دیں۔
سپریم کورٹ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ اگرچہ یہ قوائد و ضوابط (ٹی او آرز) جامع ہیں تاہم ان میں ترامیم کی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم نے معاملے کا تکنیکی جائزہ بھی لینا ہے پالیسیاں بناتے وقت نیک نیتی اور بدنیتی کا تعین بھی کرنا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے شجاعت عظیم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا مشروط حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ شجاعت عظیم آڈیٹر جنرل کے بلانے پر ضرور پیش ہوں گے بصورت دیگر ان کی جائیداد ضبط کر لی جائےگی۔