مخصوص نشستوں کا معاملہ، پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں خارج کردیں

سنی اتحاد کونسل

پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستیں خارج کردیں۔

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں پر پشاور ہائی کورٹ میں سماعت جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ پشاور ہائیکورٹ میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل کا آغاز کیا۔

وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ کچھ سوال لارجر بینچ نے چھوڑے ہیں جس پر عدالت کی معاونت کروں گا۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان چھینا اور اسی عدالت نے واپس بحال کردیا۔ سپریم کورٹ نے اس عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا، فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سامنے آئے، تمام ارکان پی ٹی آئی کے چھتری تلے پاس ہوئے۔

ن لیگ کی رہنما ثوبیہ شاہد نے قومی اسمبلی کی مخصوص نشست سے استعفیٰ دیدیا

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اراکین سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 210 اور 202 میں سیاسی پارٹی کا ذکر موجود ہے۔  سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا لیکن یہ ضروری نہیں، بائیکاٹ بھی الیکشن کا حصہ ہوتا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کا کہنا ہے کہ اگر ایک جماعت الیکشن نہ لڑے تو پھر بھی سیاسی پارٹی ہوتی ہے؟ سیاسی پارٹی تو سیٹیں جیتنے کیلئے الیکشن میں حصہ لیتی ہے۔ جس پر علی ظفر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے پاس انتخابی نشان ہے اور الیکشن لڑنے کا اختیار ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس شکیل احمد نے سوال کیا کہ اگر انتخابات میں حصہ نہیں لیتے پھر کیا ہوگا؟ علی ظفر نے کہا کہ میں پہلے اس پر بات کررہا ہوں کہ میں سیاسی جماعت ہوں، اگر میں سیاسی جماعت ہوں تو میرے بنیادی آئینی حقوق کیا ہیں۔ آرٹیکل 17 کے تحت میرے کئی بنیادی حقوق بنتے ہیں، اس نے جتنی نشستیں جیتی انکو اس تناسب سے ملتی ہیں۔

علی ظفر بولے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ انکی نشستیں بڑھا دی جائیں۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ آئین کی ایسی تشریح کریں کہ یہ خلا پیدا نہ ہو۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ آپ فہرست دوبارہ نہیں دے سکتے، یہ دوسرا شیڈول بھی جاری کر سکتے ہیں۔ جنرل الیکشن کا بھی انہوں نے دوسرا شیڈول جاری کیا ہے۔ یہ کہنا کہ آپ فہرست اب نہیں دے سکتے یہ غلط ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین کا عمران خان کی رہائی،سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کا مطالبہ

پشاور ہائیکورٹ نے مؤقف اپنایا کہ جو پارٹیاں الیکشن میں حصہ نہیں لیتی ان کا حق نہیں بنتا، زیرو کے ساتھ جو بھی جمع کریں وہ زیرو ہی ہوتا ہے۔ مخصوص نشستیں تب ملتی ہیں جب سیاسی جماعتوں نے سیٹ جیتی ہو، سنی اتحاد کونسل نے کوئی سیٹ جیتی ہی نہیں۔ آپ نےسیٹ نہیں جیتی تو آزاد امیدوار بھی آپ کو جوائن نہیں کرسکتے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آگئے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ باپ پارٹی کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، یہ اعلامیہ ہے فیصلہ نہیں۔ یہ درخواستیں تمام اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے لیے ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ دیر بعد سناتے ہوئے  مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں خارج کردیں۔


متعلقہ خبریں