تردید جاری کرنے میں صدر مملکت کو 27 گھنٹے کیوں لگے؟ منصور علی خان


سینیئر تجزیہ کار منصور علی خان نے کہا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا یہ بیان کافی مبہم ہے، تردید جاری کرنے میں صدر مملکت کو 27 گھنٹے کیوں لگے؟

ہم نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے صدر مملکت کی آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کیے جانے سے متعلق اظہار خیال کیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ ایوان صدر کا اسٹاف کیا صدر مملکت کی مرضی کے بغیر کام کر رہا ہے؟ کیا عملہ انکا حکم نہیں مان رہا؟

صدر نے آفیشل سیکرٹ اور آرمی ایکٹ سے متعلق کوئی ہدایات نہیں دی تھیں ، ذرائع کا دعویٰ

منصور علی خان کا کہنا تھا کہ ’27 گھنٹے پہلے پاکستان کے پورے میڈیا پر یہ خبر چل چکی تھی کہ صدر مملکت آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کرچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ 27 گھنٹے بعد صدر مملکت کو یہ ٹویٹ کیوں کرنا پڑی کہ دستخط میں نے نہیں کیے؟’

انہوں نے کہا کہ ‘عارف علوی سوشل میڈیا پر کافی فعال ہیں، وہ ان میں سے نہیں جنہیں معلوم نہ ہو کہ میڈیا پر کیا چل رہا ہے۔ اگر ایوانِ صدر کو 27 گھنٹے بعد اس خبر کا پتا چل رہا ہے تو میرے لیے یہ حیرانگی کی بات ہے۔ اگر تردید آنی ہوتی تو چند گھنٹوں کے اندر ہی آجاتی۔’

صدر مملکت نے جان بوجھ کر منظوری میں تاخیر کی، وزارت قانون

سینیئر تجزیہ کار نے مزید کہا کہ ‘صدر عارف علوی اپنی ٹویٹ میں معافی مانگ کر یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر اس بل کی وجہ سے کسی کا نقصان ہونا ہے تو میں پہلے سے معذرت خواہ ہوں۔ ایک طرف عارف علوی کہہ رہے ہیں کہ میں نے دستخط نہیں کیے اور دوسری طرف وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ بل سے اثر پڑے گا۔’


متعلقہ خبریں