کسی کو تاحیات نااہل کرنا بہت سخت سزا ہے، چیف جسٹس


اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ کسی کو تاحیات نااہل کرنا بہت سخت سزا ہے۔

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن میں نااہلی ریفرنس پر رائے نہیں دے سکتے اور منحرف ارکان کا معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل اظہر صدیق نے مؤقف اختیار کیا کہ میرا مقدمہ نااہلی ریفرنس نہیں ہے، میرا مقدمہ یہ ہے کہ دن کی روشنی میں پارٹی کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ اس معاملے کا جائزہ الیکشن کمیشن نے لینا ہے اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ ہی آئے گی۔ آپ کی پارٹی کے کچھ لوگ ادھر کچھ ادھر ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ق لیگ کے سربراہ خاموش ہیں اور ایک بلوچستان کی پارٹی ہے ان کے لوگوں کا پتہ نہیں وہ کدھر ہیں۔ آدھی پارٹی ادھر ہے آدھی ادھر ہے اور جس کی چوری ہوتی ہے اس کو معلوم ہوتا ہے لیکن ان پارٹیوں کے سربراہ ابھی تک مکمل خاموش ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لانگ مارچ، حکومت کا اہم شخصیات کو نظربند کرنے پر غور

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ بھارت میں منحرف ارکان کے لیے ڈی سیٹ نہیں نااہلی کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ بھارت کے شیڈول 10 میں منحرف رکن کی نااہلی کی معیاد کتنی ہے؟ اور یہ کیوں کہتے ہیں کہ سیاستدان چور ہیں؟ جب تک تحقیقات نہیں کی جاتیں تو ایسے بیان کیوں دیتے ہیں؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیاں نے کہا کہ 28 مارچ کو عدم اعتماد پر قرارداد منظور ہوئی اور 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونا تھی اور سوال پوچھنا چاہیے تھا کہ عدم اعتماد کیوں لائی گئی؟ 31 مارچ کو ارکان نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا لیکن ہم نے آئین کا تحفظ کرنا ہے اور اسی لیے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ریفرنس سن رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ منحرف ارکان سے متعلق آرٹیکل 63 اے کا کوئی مقصد ہے اور آئینی ترامیم کے ذریعے 63 اے کو لایا گیا۔ 1970 سے جو میوزیکل چیئر چل رہی ہے اسے اب ختم ہونا چاہیے۔

وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ میری نظر میں قانون غیر مؤثر ہے اور ابھی بھی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو غلط اقدام کا اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے اور قانون کے اندر عدالت کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔

یہ بھی پڑھیں: امپورٹڈ حکومت ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے، شہباز گل

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انحراف کی ایک سزا ڈی سیٹ ہونا ہے اور ڈی سیٹ کے ساتھ دوسری سزا کیا ہو سکتی ہے ؟ آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی معیاد کا ذکر نہیں تو اب سوال یہ ہے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کو کسی دوسرے آرٹیکل کے ساتھ ملا سکتے ہیں؟ ڈی سیٹ ہونا آئینی نتیجہ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ منحرف کو نااہل کرنے کا طریقہ کار کیا ہو گا اور کیا اس کے لیے ٹرائل ہو گا ؟ اگر رشوت کا الزام لگایا ہے تو اس کے شواہد کیا ہوں گے؟ قانون کے مطابق الیکشن ہوں گے تو یہ چیزیں ختم ہو جائیں گی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انحراف بذات حود ایک آئینی جرم ہے اور مخرف ارکان کے لیے ڈی سیٹ ہونا سزا نہیں ہے۔

مسلم لیگ ق کے وکیل اظہر صدیق کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل عثمان منصور نے دلائل دیئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں جمہوری طریقے سے ترمیم کے بعد 63 اے شامل کیا گیا ہے اور کسی کو تاحیات نااہل کرنا بہت سخت سزا ہے۔ سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کی کچھ شرائط مقرر کر رکھی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں انحراف ایک سنگین غلطی ہے۔ ملک کو مستحکم حکومت کی ضرورت ہے تاکہ ترقی ہو سکے۔

انہوں نےکہا کہ کسی کو بھی غلط کام سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سپریم کورٹ بار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں انحراف کرنا ٹھیک ہے ؟ اور آئین میں انحراف کو غلط کہا گیا ہے۔

وکیل منصور اعوان نے مؤقف اختیار کیا کہ ضمیر کی آواز پر جو انحراف کرے اس کی سزا ڈی سیٹ ہونا ٹھیک ہے اور جس نے پیسے لے کر انحراف کیا اس کی سزا سخت ہونی چاہیے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر کسی کے ضمیر کا معاملہ ہے تو استعفٰی دے اور ضمیر کی بات ہے تو انحراف نہ کریں اور انحراف سے بہتر ہے ضمیر کی آواز پر استعفی دیا جائے تاہم انحراف کرنے والوں کے لیے عوام سخت لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن وہ لفظ میں استعمال نہیں کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ منحرف ارکان ہوٹلوں میں جاتے ہیں تو عوام آوازیں کستے ہیں اور منحرف اراکین نے آخر کار عوام میں جا کر ان کا سامنا کرنا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کو آرٹیکل 17 ٹو کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں اور آرٹیکل 17 کی ذیلی شق 2 کے تحت سیاسی جماعتوں کے حقوق ہوتے ہیں۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ اگر عدالت چاہے گی تو اگلے ہفتے منگل کو عدالت کی معاونت کروں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے سامنے بڑا اہم اور پیچیدہ سوال ہے اور ایسے معاملات پر کہیں لائن کھینچنا پڑے گی۔ پیر کو صدارتی ریفرینس پر ہماری معاونت کریں۔ کیا آرٹیکل 63 اے کی تشریح اس انداز سے کرسکتے ہیں جس سے سیاسی و قانونی استحکام آئے۔

انہوں نے کہا کہ کیا آئینی تشریح میں پارٹی سربراہ کو اجازت دے دیں؟ پارٹی سربراہ چاہے تو منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کرے اور پارٹی سربراہ نہ چاہے تو کارروائی نہ کرے۔ ہمارے سیاسی نظام میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ، ہیجان، دباؤ اور عدم استحکام ہے جبکہ عدالت نے فریقین کے درمیان فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور ہزاروں مقدمات عدالتوں کے سامنے زیر التوا ہیں۔

اشتر اوصاف نے کہا کہ عدالتی بحث سے کسی نہ کسی سمت کا تعین ہوجائے گا۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔ ہر معاملے عدالت میں آرہا ہے۔

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں