اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کے ذمہ دار سابق فوجی افسران کے خلاف کارروائی کے احکامات جاری کردیے ہیں ۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک ہفتے میں کارروائی کا فیصلہ کرے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ سابق فوجی افسران کا ٹرائل کدھر ہو؟ یہ طے کرنا حکومت کا کام ہے۔
عدالت عظمیٰ میں اصغرخان عملدرآمد کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار ریمارکس میں کہا کہ حکومت عملدرآمد کا فیصلہ ایک ہفتے میں کرے اور یہ فیصلہ کابینہ اجلاس میں کیا جائے ۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ فیصلے کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا جائے۔ چیف جسٹس نے استدعا مسترد کردی۔ کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے ہوگی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اصغرخان عملدرآمد کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدالت اصغرخان کیس میں فیصلہ دے چکی ہے، نظرثانی کی درخواستیں خارج کی چکی ہیں، اب عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہونا ہے اورعدالتی فیصلوں پر من و عن عمل ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے سربراہ نے سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ آئین کی ہر خلاف ورزی آرٹیکل چھ کے زمرے میں نہیں آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی کا فیصلہ حکومت نے کیا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایاکہ اگر کوئی جرم ہوا ہے تو اس کا ٹرائل ہونا چاہیے، جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کے بیانات قلمبند نہیں ہوئے،اب ایف آئی اے ان لوگوں کے بیانات ریکارڈ کرے گی، فوجداری ٹرائل ایف آئی اے کی تحقیقات کے بعد ہوگا۔
اصغرخان مرحوم کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت سے کہا کہ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کے خلاف ایکشن اور دیگر کے خلاف تحقیقات ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اصغرخان کیس میں بڑے انکشافات ہوئے،سابق فوجی افسران کے جرم کا آرمی ایکٹ، الیکشن ایکٹ اور آئین کے تحت جائزہ لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملٹری کورٹ میں کس جرم کا ٹرائل ہو گا یہ طے ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ وکلا کا مقدمہ میں دلائل کے بعد پروگرام میں اظہار رائے کرنا توہین عدالت ہے۔ انہوں نے استفسار کیاکہ یہ سب کیا ہورہا ہے سارا سسٹم خراب ہورہا ہے۔
عدالت میں موجود سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پروگرام میں شرکت کی ،عدالت کی آبزرویشن پر سر تسلیم خم کرتا ہوں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ بات صرف آپ کے لیے نہیں ہے، یہ آبزرویشن ان سب وکلا کے لیے ہے جو ایسا کرتے ہیں۔

