میانمار میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے 24 گھنٹے بعد نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے اسیر رہنما آنگ سان سوچی اور دیگر اسیر رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کردیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق این ایل ڈی کا کہنا ہے کہ ملک کی فوج گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے الیکشن میں آنگ سان سوچی کی جماعت کی فتح کو تسلیم کرے اور انہیں فوری طور پر رہا کرے۔
نیوز ایجنسی کے مطابق گرفتاری کے 24 گھنٹے بعد بھی نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت کے دیگر اسیر رہنماؤں کے ٹھکانے کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ میانمار میں فوج نے بغاوت کرتے ہوئے آنگ سان سوچی سمیت دیگر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا ہے۔
نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے سینئر رہنما کیی ٹو کا کہنا ہے کہ آنگ سان سوچی کو جس جگہ منتقل کیا گیا ہے وہی پر انہیں رکھا گیا ہے اور ان کی صحت ٹھیک ہونے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
آنگ سانگ سوچی کو درجنوں ساتھیوں سمیت دارالحکومت نیپائڈاو سے پیر کے روز گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے اور ان کت قطعی ٹھکانے کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں۔
مزید پڑھیں:آنگ سانگ سوچی کی اعزازی شہریت منسوخ
کیی ٹو کا مزید کہنا ہے کہ پارٹی کے دیگر ارکان اسمبلی جنہیں حراست میں لیا گیا تھا انہیں اپنے کوارٹرز چھوڑنے دیا جارہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق میانمار میں فوجی بغاوت انتخابات کے بعد سویلین حکومت اور فوج کے مابین کشیدگی کی وجہ سے ہوئی۔ میانمار کی فوج نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے تھے۔
فوج نے قومی ٹیلی ویژن پر اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ایک سال کے لیے ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کر رہی ہے۔ فوج نے کمانڈر ان چیف من آنگ ہلاینگ کو ملکی اختیارات سونپ دیے۔
واضح رہے کہ ملک میں نومبر میں ہونے والے انتخابات میں این ایل ڈی نے حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں حاصل کر لی تھیں تاہم فوج نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
پارلیمنٹ کے نو منتخب ایوان زیریں نے آج یعنی پیر کے روز پہلا اجلاس کرنا تھا لیکن فوج نے التوا کا مطالبہ کر رکھا تھا۔
ملک کے اہم شہروں میں ٹیلیفون اور انٹرنیٹ سروس منقطع کر دی گئی ہے جبکہ میانمار کے ریاستی نشریاتی ادارہ بھی آف ائر کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے فوجی ترجمان نے بغاوت کا اشارہ دیا تھا اور خبردار کیا تھا اگر الیکشن کی بے ضابطگیوں کا معاملہ حل نہیں کیا جاتا تو مسلح افواج کارروائی کر سکتی ہے۔واضح رہے کہ آنگ سان سوچی کی جماعت نے گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔