طالبان کے ساتھ دو نکات پر بات کروں گا، زلمے خلیل زاد

فوٹو: فائل


کابل: امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے قیام امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس اطلاع کی سختی سے تردید کی ہے کہ مذاکراتی عمل ڈیڈ لاک کا شکار ہوگیا ہے۔ انہوں نے روایتی مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے مزید بڑے عملی اقدامات لیے جانے کی ضرورت ہے۔

افغان نشریاتی ادارے ’طلوع نیوز‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے ضرورت ہے کہ افغان حکومت کی سربراہی یا سرپرستی میں مضبوط و متحد مذاکراتی ٹیم تشکیل دی جائے جو جامع مذاکرات کرے۔

امریکہ شروع دن سے خواہش مند ہے کہ طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کرنے پہ آمادہ ہوجائیں لیکن وہ ابتدا ہی سے اس خیال کے بھی حامی نہیں ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی بھی متعدد مرتبہ طالبان کو بات چیت کی دعوت دے چکے ہیں لیکن طالبان قیادت نے پیشکش کا جواب دینا بھی گوارہ نہیں کیا۔

طلوع نیوز کے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ دوحہ، قطرمیں ہونے والے مذاکرات میں ان کا فوکس صرف دو نکات پر ہوگا۔ اول، افغان طالبان کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر آمادہ ہوجائیں اور دوئم یہ کہ سیز فائر پرفریقین اتفاق کرلیں۔

امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے کہا کہ افغان امن عمل میں کسی بھی ملک سے زیادہ سعودی عرب کا کردار ہے جو نہایت اہم ہے۔

ایک سوال کے جواب میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ امن کے خواہاں ہیں اورمیں بھی یقین رکھتا ہوں کہ ایسا ہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کس قسم کا امن؟ کیونکہ امن کے لیے اتحاد، اتفاق اور باہمی احترام ضروری ہے۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل نے کہا کہ افغانستان کے اندر اور باہر دوںوں اطراف بشمول طالبان اتفاق رائے پیدا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر افغانستان کے تمام فریقین آپس میں مل جل کر اتفاق رائے کے ساتھ ایسا سیاسی معاہدہ یا ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں جو جنگ کے خاتمے کی بنیاد بنے تو پھر اسے حقیقی معنوں میں مذاکراتی عمل کی کامیابی سے تعبیر کیا جائے گا۔

امریکہ اورطالبان کے درمیان طے شدہ شیڈول کے مطابق 25 فروری 2019 کو دوحہ،قطر میں مذاکرات ہوں گے۔


متعلقہ خبریں