ایون فیلڈ ریفرنس میں شریف فیملی کی ضمانت برقرار



اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایون فیلڈ(لندن فلیٹ) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد محمد صفدر کی ضمانت برقرار رکھتے ہوئے قومی احتساب بیورو(نیب) کی درخواست خارج کردی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے چيف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سماعت کی۔  جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس مشير عالم، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مظہر عالم بھی بینچ کا حصہ تھے۔

نیب پراسکیوٹر اکرم قریشی اور شریف فیملی کی جانب سے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔

وکیل صفائی خواجہ حارث نے کہا کہ17  قانونی نکات ہیں جن پر عدالت نے بحث کا کہا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قبل ازیں اس پر بات ہو چکی ہے آج پہلے نیب کا موقف سن لیتے ہیں۔

استغاثہ کے وکیل اکرم قریشی نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزا معطلی میں قانونی تضاضے کو مدنظر نہیں رکھا، کیس کے میرٹس پر بات کی گئی جو کہ ہائیکورٹ کا اختیار نہیں ہے۔

بینچ کے سربراہ نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ ہمیں سارے حقائق پتا ہیں اس سے ہٹ کر آپ کس بنیاد پر ضمانت منسوخی چاہتے ہیں، آپ بتا دیں کن اصولوں پر ضمانت منسوخ ہو سکتی ہے اور یہ بھی بتا دیں کہ کیا ہائی کورٹ کو سزا معطل کرنے کا اختیار تھا۔

وکیل اکرم قریشی نے مؤقف اپنایا کہ ضمانت کے کیس میں میرٹ کو نہیں دیکھا جا سکتا لیکن ہائی کورٹ نے میرٹ کو دیکھا، اس کیس میں ہائی کورٹ ٹرائل کورٹ کے میرٹ پر گئی جو کہ اختیارات سے تجاوز تھا، ہائی کورٹ نے خصوصی حالات کو بنیاد بنایا۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ لیکن ضروری نہیں کہ یہ حالات واقعی ایسے ہوں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ضمانت تو اب ہوگئی ہے بےشک غلط اصولوں پر ہوئی ہو، آپ ہمیں مطمئن کریں کہ ہم کیوں کر ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیں۔

بینچ کے رکن ، جسٹس گلزار نے استغاثہ سے استفسار کیا کہ آپ ضمانت منسوخی کن بنیادوں پر چاہ رہے ہیں؟

نیب وکیل اکرم قریشی نے مؤقف اپنایا کہ میں سپریم کورٹ کے مقدمات کی بنیاد پر ہی کہہ رہا ہوں، صرف ہارڈشپ کے اصولوں پر ضمانت ہو سکتی ہے جب کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت ہارڈشپ کے اصولوں پر نہیں ہوئی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف تو باقاعدگی سے عدالتی کارروائی کا حصہ بنتے آرہے ہیں، پھر آپ کیوں سزا معطلی کیخلاف فیصلہ چاہتے ہیں، سزا معطلی کے فیصلے کیخلاف آپ کے پاس ٹھوس شواہد ہونے چاہیئں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ نیب کیلئے کیا مشکل ہے کہ بری ہو گئے ہیں؟ کس بنیاد پر ضمانت منسوخ کرانا چاہتے ہیں؟ کیا ضمانت کا غلط استعمال ہوا ہے؟

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ضمانت فیصلے میں دی گئی آبزرویشن وقتی ہوتی ہے، عبوری حکم کبھی حتمی نہیں ہوتا اور حتمی حکم پر اثر انداز بھی نہیں ہوتا۔

جسٹس گلزار نےریمارکس دیے کہ جس بنیاد پر نواز شریف کو سزا ہوئی اسی بنیاد پر ان کی ضمانت بھی ہوئی، آپ نے تو اس بنیاد کو چیلنج ہی نہیں کیا۔

جسٹس کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ نے خود کہا اوبزرویشن حتمی نہیں، ہائی کورٹ نے غیر ضروری طور پر تجاوز نہیں کیا۔

وکیل نیب نے مؤقف اپنایا کہ ہارڈشپ کی بنیادوں پر ضمانت نہیں ہوئی۔ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ لیکن یہ کوئی آپ کی ٹھوس بنیاد نہیں۔

سپریم کورٹ نے نواز شریف کی سزا معطلی کے خلاف اپیل خارج کرتے ہوئے سماعت برخاست کردی۔

گزشتہ برس ستمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں شریف خاندان کی سزاؤں سے متعلق درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت کی دی گئی سزائیں معطل کر دی تھیں۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 6 جولائی 2018 کو نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی، جسے بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے 19 ستمبر کو معطل کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا تھا۔


متعلقہ خبریں