چودھری غلام عباس کو دنیا سے کوچ کیے 51 برس بیت گئے


اسلام آباد: رئیس الاحرار چودھری غلام عباس کی وفات کو 51 برس بیت گئے ہیں۔ وہ جموں وکشمیر میں بانی پاکستان  قائداعظم محمد علی جناح کے دستِ راست اور جان نشین رہے۔ اس کا اعلان خود بانی پاکستان نے اپنی زندگی میں کیا تھا۔

چار فروری 1904 کو چودھری غلام عباس جموں میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور تشریف لائے اور لا کالج سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔

آپ کا شمار ڈوگرہ راج کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ انہیں خاموش رکھنے کے لیے ڈوگرہ راج میں جج بننے کی پیشکش کی گئی جو انہوں نے ٹھکرادی۔

چودھری غلام عباس کشمیری مسلمانوں کے تحفظ کے لیے بنائی جانے والی ’مسلم کانفرنس‘ کے بانی جنرل سیکریٹری تھے جب کہ مسند صدارت پہ شیخ عبداللہ فائز تھے۔ مسلم کانفرنس کا نام بعد میں ’نیشنل کانفرنس‘ رکھ دیا گیا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب شیخ عبداللہ کے انڈین نیشنل کانگریس سے روابط بہت بڑھ گئے تو رئیس الاحرار نے ’آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس‘ کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی صدر بھی رہے۔

چودھری غلام عباس کی سیاست و جدوجہد کا مرکز و محور صرف یہ بات تھی کہ وہ غلامانہ نظام کے سخت خلاف تھے اور وطن کی آزادی پر یقین رکھتے تھے۔

قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی میں نواب بہادر یار جنگ اور چودھری غلام عباس کو اپنا جان نشین مقرر کیا تھا۔ ان کی پاکستان سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں پاکستان میں دفن کیاجائے۔

چودھری غلام عباس نے 18 دسمبر 1967 کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ اس وقت ان کی عمر محض 63 برس تھی۔ وہ معدے کے سرطان میں مبتلا تھے۔

ہرسال ان کی برسی کے موقع پر فیض آباد میں ان کے مزار پر قرآن خوانی وفاتحہ خوانی کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ریاست کی سیاسی قیادت سمیت اہم حکومتی و وفاقی نمائندگان شرکت کرتے ہیں۔

چودھری غلام عباس آزادکشمیر حکومت کے قیام سے لے کر 1951 تک ریاست کے سپریم ہیڈ بھی رہے۔

پاکستان پوسٹل سروس نے چودھری غلام عباس کی تحریک آزادی میں خدمات کے اعتراف کے طور پر 1995 میں ڈاک ٹکٹ جاری کیے تھے۔


متعلقہ خبریں